'میں برہان وانی کی موت کا دن کبھی نہیں بھولوں گا'
مجھے یہ خبر اس وقت موصول ہوئی جب میں شمالی کشمیر کے ایک ہزار سے بھی کم گھروں پر مشتمل شہر وجبل میں تھا۔
مجھے عید کے فوراً بعد دہلی روانہ ہونا تھا اس لیے میرے کزنز نے میرے جانے سے قبل مجھے عشائیے کی دعوت دے رکھی تھی۔
جنوبی کشمیر کے شہر ترال کے دوستوں میں سے ایک نے مجھے واٹس ایپ کے ذریعے خبر دی کہ برہان وانی کو قتل کر دیا گیا ہے۔
مجھے اپنے دوست پر یقین ہی نہیں آیا۔ مجھے لگا کہ یہ محض ایک افواہ ہے۔ آدھے گھنٹے کے بعد ہی بھارتی میڈیا فتح کے اعلانات کے ساتھ فاتحانہ جشن میں مصروف ہو گیا۔
اس جشن کا آغاز ٹوئٹر سے ہوا اور چند لمحوں میں ٹی وی تک جا پہنچا۔ بھارتی چینل این ڈی ٹی وی سے منسلک صحافی برکھا دت نے ٹوئٹ کیا کہ، "برہان وانی کا خاتمہ ایک بڑی خبر ہے۔"
میل ٹوڈے کے مینیجنگ ایڈیٹر ابھیجیت مجُمدر نے ٹوئٹ کیا کہ، ’’برہان وانی کے قتل کے ساتھ، بھارتی فورسز فیس بک پر چھائے کشمیر کے دہشت گرد پوسٹر بوائز کے گینگ کا ایک بعد ایک مکمل خاتمہ کر چکی ہے۔ سلام۔‘‘
باہر گاڑیوں، ٹرکوں اور موٹر سائیکلوں کے ہارنز کا شور شروع ہو گیا۔ میری خالہ نے پریشان ہو کر اپنے بیٹے کو کہا کہ باہر دیکھو سب خیریت تو ہے۔
میں نے انہیں بتایا کہ، "برہان گوے شہید"، (برہان شہید ہو چکا ہے)۔
انہوں نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا۔
میری خالہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔
یہ کسو توان کژنتھ خدایو (یہ ہم پر کیسا عذاب بھیجا ہے اے خدایا) انہوں نے رنج و غم میں کہا۔
پڑھیے: بھگت سنگھ ہیرو تو برہان وانی کیوں نہیں؟
اسی وقت آسمان بھی برس پڑا اور ٹن کی چھت پر برساتی بوندوں کا شور بڑھتا چلا گیا۔
میں نے اپنے کزن کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ سرخ تھا، آنکھیں بھر آئی تھیں، اور جسم لرزاں تھا۔
اس کا فون بجا، تو بالآخر اس نے نوٹ کیا کہ یہ پانچویں دفعہ بج رہا تھا۔ یہ میری امی کا فون تھا۔
اگلی صبح تک انٹرنیٹ بند کیا جا چکا تھا۔ لوگ حکومت کی جانب سے وادی میں رابطے محدود کرنے کے لیے موبائل نیٹ ورکس بھی بند ہونے کی توقع کر رہے تھے۔
لوگ جانتے ہیں کہ ریاست کس طرح کام کرتی ہے۔ چاہے جنگی حالات ہوں یا پرامن صورتحال، بھارتی ریاست کا جبر ہمیشہ ایک جیسا ہوتا ہے۔
لوگ جانتے تھے کہ آئندہ دنوں میں رابطے اور صورتحال سے آگاہی صرف ایک سے دوسرے گاؤں پیدل سفر کر کے ہی ممکن ہو سکے گی۔ وہ جانتے تھے کہ انہیں ان کشادہ شاہراہوں سے گریز کرنا ہوگا جو کہ صرف بھارتی فوجی قافلوں کی آسانی سے نقل و حرکت کے لیے تعمیر کی گئی ہیں۔
وہ سب جانتے ہیں
میں رفیع آباد میں رہتا ہوں جو کشمیر کے باقی علاقوں کی طرح سخت فوجی حصار میں ہے۔ ہر 5 کلومیٹر کے بعد بھارتی فوج کے کیمپ قائم کیے گئے ہیں تاکہ وہ ہر گاؤں اور وہاں موجود ہر فرد پر نظر رکھ سکیں۔
فوج کو یہ بھی معلوم ہے کہ ہر گھر میں کتنے افراد رہائش پذیر ہیں، اور یہ کہ ان میں سے کتنے مرد اور کتنی خواتین، کتنے پڑھے لکھے اور کتنے ان پڑھ ہیں، وہ کون سی جگہوں پر کام کرتے ہیں، گھر میں کتنے نومولود، نوجوان اور بوڑھے افراد موجود ہیں۔
انہوں نے ہمارے گھروں پر نمبرز لگا رکھے ہیں جبکہ محلوں کی درجہ بندیاں کر رکھی ہیں۔ انہوں نے ہماری گلیوں، دکانوں، کھیلوں کے میدانوں یہاں تک کہ سیب کے باغات پر بھی نشانات درج کیے ہوئے ہیں۔
انہیں ہمارے گھر کے آنگنوں کے رقبے بھی معلوم ہیں۔ یہاں تک کہ انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ ہم نے اپنے باڑے کس طرح بنائے ہوئے ہیں۔
وہ سب کچھ جانتے ہیں۔
جیسے ہی احتجاجی مظاہرے اور پتھراؤ کا سلسلہ شروع ہوا، ویسے ہی اجتماعی جنازوں کی بھی ابتدا ہوگئی۔
لوگوں نے ہلاکتیں گننی شروع کردیں اور تعداد بڑھتی ہی رہی۔
احتجاجی مظاہروں کا دائرہ کار بھی بڑھتا رہا۔
قتل و غارت، نابینا اور اپاہج کرنے اور لوگوں پر تشدد کی مہم بھی جاری رہی۔
پاکستان کا بھوت
احتجاجی مظاہرے بھارتی ریاست کی ہر میدان میں شکست کو ظاہر کر رہے تھے۔ انہوں نے حقیقت کو چھپانے کے لیے شیعہ-سنی، مسلم-غیر مسلم، کشمیری-لداخی، تبلیغی-سلفی، اور اکثریت-اقلیت کی جو تقسیم پیدا کی ہوئی تھی وہ دھواں بن کر اڑ چکی تھی اور ہوا میں اب صرف آزادی کے نغموں کی گونج تھی۔
مگر بھارت کے نیوز رومز میں اپنے پڑوسی ملک کو کشیدگی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں کشیدہ حالات کا ذمہ دار پاکستان ہے۔
کبھی کبھار ہم سوچتے ہیں کہ، بالفرض پاکستان کھسک کر انٹارکٹکا سے جا ملے تو پھر بھارتی ریاست اور اس کا جارحانہ میڈیا کہاں سے ایسے بیانیے لائے گا۔
وہ اپنی ناکامیوں، غلطیوں، منافقت اور اپنی بدکاریوں کا الزام کس پر عائد کریں گے؟
ایک مزاحمت
برہانی وانی کی ہلاکت کے فوراً بعد (تاریخیں اب اہمیت کھو چکی ہیں) رفیع آباد کے لوگ اچابل میں واقع عیدگاہ کے قریب جمع ہوئے۔
مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے اعلانات کیے گئے تھے۔ علاقے سے متصل دیگر دیہات کے لوگ بھی وہاں جمع ہو گئے۔ جیسے جیسے لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی ویسے ویسے نعروں کی گونج بھی بڑھتی جا رہی تھی، جسے سن کر قریب واقع فوجی کیمپ میں کھلبلی مچ گئی۔
پڑھیے: 'خدارا، ابو کچھ کریں، میں درد سے مرا جارہا ہوں'
جیسے ہی مظاہرین فوجی کیمپ کے قریب پہنچے تو دو بکتربند گاڑیوں نے سڑک کا ایک راستہ بند کر دیا۔
باقی سڑک کو خاردار تاروں سے بند کر دیا گیا۔ مظاہرہ تو وہاں رُک گیا مگر نعرے بازی نہیں رکی۔
جلد ہی کشیدگی پیدا ہو گئی۔
جیسے ہی فوجی گاڑیوں پر پتھراؤ ہوا تو کیمپ سے مزید فوجی اہلکار وہاں آ پہنچے اور بندوقوں اور لاٹھیوں کے ساتھ مظاہرین کی جانب بڑھنا شروع کر دیا۔ چند مظاہرین نے پیچھے مڑنا شروع کر دیا۔
ہمیں ہمارے بڑوں نے سمجھایا ہے کہ بھارتی فوج کے ساتھ براہ راست مقابلے سے گریز کرنا چاہیے، مگر مظاہرین میں کچھ افراد ایسے بھی تھے جو پیچھے نہیں مڑے اور ثابت قدمی کے ساتھ وہاں کھڑے رہے۔
ان میں زیادہ تر کو بعد میں اٹھا لیا گیا۔ کشمیر میں موجود تمام سکیورٹی تنصیبات جدید ترین کیمروں سے لیس ہیں جو لوگوں کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھتے ہیں۔
انہوں نے مظاہرے کی فوٹیج کے ذریعے ان تمام لوگوں کی شناخت کر لی جو اس روز مظاہرے میں آگے آگے موجود تھے۔ فورسز کو خبر تھی کہ وہ کون لوگ ہیں۔ وہ ان کے گھروں کے پتے بھی جانتے تھے۔ وہ انہیں ان کے بیڈرومز میں سے بھی اٹھا سکتے تھے۔
کیمپ میں ان پر بدترین تشدد کیا گیا۔ ان میں سے ایک لڑکے نے مجھے بعد میں بتایا کہ کس طرح انہیں برہنہ کھڑا ہونے پر مجبور کیا گیا، انہیں گالیاں دی گئیں، ان سب پر تھوکا گیا، اور جسموں سے خون بہنے تک مسلسل بندوقوں، لاٹھیوں اور بیلٹس سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
انہیں موت کی دھمکیاں دی گئیں اور یہاں تک کہ ان میں سے چند افراد کو برہنہ حالت میں ندی میں چھلانگ لگانے پر مجبور کیا گیا۔ مگر قید سے آنے کے بعد بھی وہ دوبارہ احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لیے پر عزم تھا۔
ایک اور لڑکا جس کی عمر تیرہ برس سے بھی کم تھی، اپنے کمرے میں سیدھا لیٹا ہوا تھا۔ جب میں عیادت کے لیے اس کے کمرے میں داخل ہوا تو اس نے میری طرف مسکرا کر دیکھا۔ ایسا بالکل بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ وہ تشدد سے متاثر ہوا ہے۔
وہ اپنی پیٹھ سے پٹی اتارے جانے کا انتظار کر رہا تھا۔ مجھ سے کہنے لگا کہ، ’جس فوجی اہلکار نے مجھے مارا تھا اس کا چہرہ مجھے یاد ہے۔ میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔‘
وہ واضح طور پر کافی طیش میں تھا۔ اس لڑکے کے اندر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر اور ناانصافیوں کا بدلہ لینے کی چاہ تھی۔
کشمیریوں بالخصوص کشمیری نوجوانوں میں اس غصے اور بدلے کو 'ماہرینِ کشمیر' حضرات بڑھا چڑھا کر اور توڑ مروڑ کر اسے صرف تنہا انتقام کے مسئلے کے طور پر ہی پیش کرتے ہیں۔
جبکہ انہیں کشمیری نوجوانوں میں مذہبی انتہاپسندی کی جانب سے پیدا کیا گیا اشتعال بھی نظر آتا ہے۔
ایک غلط بیانیے کی تخلیق
برسوں سے ان 'ماہرینِ کشمیر' نے ٹی وی اور اخبارات میں آنے والے بیانیے پر کنٹرول قائم رکھنے کے لیے اپنی تمام قوت اور وسائل وقف کر رکھے ہیں۔
رواں سال اپریل میں جب بھارتی فوج کے ایک سپاہی پر کپواڑہ میں ایک نوجوان طالبہ کے ساتھ زیادتی کا الزام عائد کیا گیا تھا، تو واقعے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال، جس میں ایک عورت سمیت 5 مظاہرین ہلاک ہو گئے تھے، کی رپورٹ کے لیے نئی دہلی سے صحافیوں کا ایک گروپ وہاں بھیجا گیا۔
پڑھیے: کشمیری نوجوانوں پر چھروں کا قہر
مختلف بھارتی میڈیا اداروں سے منسلک کشمیری نمائندوں میں سے سوائے چند ایک کے، باقی تمام کو منظر نامے سے الگ ہوجانے، یا چھٹیاں لینے، یا محض نئی دہلی سے آئے انجان نمائندوں کی مدد کرنے کو کہا گیا۔
جہاں میڈیا کے نمائندوں نے اصل واقعے کے بارے میں متضاد رخ فائل کیے، وہاں بھارت کے 'ماہرینِ کشمیر' نے جلد ہی اطلاعات میں اپنی مداخلت سے ایک ایسا بیانیہ جوڑ دیا جس نے حکومت کو عوام کا دھیان زیادتی سے ہٹا کر مظاہروں کی طرف لگانے میں مدد دی۔
بھارت کے ایک اہم 'ماہرِ کشمیر' پروین سوامی ایک صحافی ہیں جن میں کشمیریوں سے یہ کہنے کی جرات ہے کہ وہ کشمیر کے بارے میں کشمیریوں سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔ انہوں نے ان مشتعل مظاہروں کو تاریخ کی روشنی میں سمجھنے پر زور دیا۔
ان کے نزدیک، "کشمیر میں موجود بحران کو 1920 کی دہائی میں آہستہ آہستہ نمو پانے والی جدید-بنیاد پرست تبدیلئ مذہب تحاریک (neo-fundamentalist proselytising movements) کو سامنے رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ان کا مطلب یہ تھا کہ بھارتی فوجی اہلکار کے خلاف جنسی تشدد کے الزامات پر سیکیولر روایات کے تحت کسی قسم کے احتجاجی مظاہرے نہیں ہونے چاہیئں، بلکہ صرف جمعیت اہلِ حدیث اور جماعت اسلامی جیسی مذہبی تحاریک ہی لوگوں کو یہ راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرتی ہیں۔
دو دیگر ’ماہرین‘ ڈیوڈ دیواداس اور آرتی ٹکو سنگھ، جن کی تحاریر میں صاف طور پر دائیں بازو کا متعصبانہ رویہ نظر آتا ہے، نے مظلوم کو ہی ملزم قرار دیتے ہوئے کشمیر میں خودارادیت کی تحریک کو مذہبی رنگ دے کر پیش کیا۔
دیواداس لکھتے ہیں کہ، "مختلف بیانیوں میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ نہتے ’شہریوں‘ کو مسلح افواج مارتی ہیں جبکہ اس حقیقت کا کہیں ذکر نہیں جاتا کہ فوج کی جوابی کارروائی سے قبل بنکر پر مشتعل افراد کے ایک گروہ نے حملہ کیا ہوتا ہے۔‘
چار ماہ بعد، ان کا کہنا تھا کہ ’’ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو پائی ہے کہ آخر موجودہ شورش زدہ صورتحال کی تہہ میں اصل معاملہ کیا ہے۔‘‘
پڑھیے: 'کئی سالوں بعد قریبی مسجد سے آزادی کے نعرے گونجے'
آرتی ٹکو سنگھ مانتی ہیں کہ، ’’2010 میں فورسز پر پتھراؤ کے نتیجے میں جھڑپوں کے دوران جو سو سے زائد نوجوان ہلاک ہوئے تھے، وہ صرف سرینگر کے غریب سنی مسلمان ہی تھے۔"
انہوں نے بھارتی پولیس حکام کی تحقیقی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’تفریحی وسائل کی کمی اور سعودی امداد سے پیدا ہونے والی مذہبی انتہاپسندی نوجوانوں کو تشدد کی جانب مائل کرتی ہے۔"
یہ 'ماہرین' کشمیری عوام کو بار بار بھارتی ریاست کی طاقت کے بارے میں خبردار کرتے رہے ہیں: اگر سڑکوں پر نکلے تو مارے جاؤ گے۔
ان کے نزدیک، ایک بھارتی فوجی کے ہاتھوں ایک کشمیری کی ہلاکت کی ذمہ داری بھارتی ریاست کے بجائے خود کشمیریوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔
مگر ان کے جھوٹ کشمیر کے لوگوں پر اثرانداز نہیں ہوسکے ہیں۔
کشمیر کی سڑکوں پر روزانہ مرد، خواتین، نوجوان اور بوڑھے اس نعرے کے ساتھ نکلتے ہیں کہ، ہم کیا چاہتے؟ آزادی!
آزادی، حق خودارادیت اور پر امن زندگی گزارنا ان لوگوں کا پیدائشی حق ہے۔
بھارتی ریاست چاہے جتنے ظلم ڈھائے، چاہے کتنی بار ملکی میڈیا کشمیر کی صورتحال کی اصل حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرے، مگر کشمیر کے لوگ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے سڑکوں پر آتے رہیں گے۔
بشارت علی جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کی اکیڈمی برائے انٹرنیشنل اسٹڈیز میں ریسرچ اسکالر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔