نقطہ نظر

کیا امریکی انتخابات میں بھی دھاندلی ہوسکتی ہے؟

پاکستان میں تو ہارنے والوں کی طرف سے دھاندلی کا الزام لگانا عام ہے، مگر کیا یہ امریکا میں بھی ہوسکتا ہے؟

کل امریکی عوام آئندہ چار سالوں کے لیے اپنے ملک کے صدر کا انتخاب کریں گے۔ مختلف اداروں اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے کیے جانے والے مختلف سرویز کے مطابق ہیلری کلنٹن کو ڈونلڈ ٹرمپ پر واضح برتری حاصل ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اوپر لگنے والے جنسی حملوں کے الزامات کے بعد بظاہر امریکی عوام کی حمایت کھو رہے ہیں۔ اس لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی انتخابی نظام پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کردیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر پیغام دیا ہے کہ ہیلری کلنٹن کے حق میں 'ووٹر فراڈ' کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے حامیوں کو انتخابی مبصر بننے کے لیے ’ٹرمپ الیکشن آبزرورز' میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔

ریاست پینسلوینیا میں انتخابی ریلی کے دوران ان کا کہنا تھا کہ "یاد رکھیں دوستوں، انتخابات میں دھاندلی ہوگی، اس لیے آپ کو ووٹ دینے نکلنا ہوگا اور کڑی نگرانی رکھنی ہوگی۔"

ڈونلڈ ٹرمپ نے ذرائع ابلاغ کی تنقید کو بھی انتخابات میں دھاندلی قرار دیتے ہوئے میڈیا ہاوسز کو بھی دھاندلی میں ملوث قرار دیا ہے۔

ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق میئر نیویارک، روڈی گیولانی نے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے کہا ہے کہ مر چکے افراد بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے حق میں ووٹ کا استعمال کریں گے۔

سماجی، سیاسی، سفارتی اور دیگر معاملات پر تجزیہ کرنے والی تنظیم سیکر ڈیلی (Seeker Daily) نے اپنے ویڈیو تجزیے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے الزامات اور امریکی انتخابات میں دھاندلی پر جائزہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی انتخابات میں دو طرح کی دھاندلی ممکن ہے۔ ایک انتخابی دھوکہ دہی اور دوسری ووٹرز دھوکہ دہی۔

انتخابی دھوکہ دہی یا دھاندلی میں انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈالنا، ووٹنگ مشینوں میں کسی قسم کی گڑبڑ یا ووٹوں کی گنتی میں ہیرا پھیری سے نتائج کو تبدیل کر دینا شامل ہے۔

ڈیلی سیکرز کے مطابق ووٹر دھوکہ دہی میں انفرادی طور پر ووٹر کسی دوسرے شخص یا کسی فوت ہو چکے شخص کی جگہ دے سکتا ہے۔

ویڈیو میں مزید بتایا گیا ہے کہ امریکا میں انتخابی عمل کے جائزے کے حوالے سے نیو یارک کے انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایک تحقیق کی گئی جس میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ شہر میں ووٹنگ کے لیے اہل افراد کی فہرست میں ایسے بھی افراد شامل تھے جو کہ ووٹ دینے کے اہل قرار نہیں دیے جا سکتے تھے۔

تفتیشی ادارے کے اہلکار نااہل ووٹر بن کر 63 پولنگ کی جگہوں میں سے 61 میں ووٹ ڈالنے میں کامیاب رہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نکل سکتا ہے کہ امریکا کا انتخابی عمل مکمل طور پر دھاندلی سے پاک نہیں ہے۔

ری پبلیکن پارٹی، جس کے نمائندے ڈونلڈ ٹرمپ ہیں، ووٹر فراڈ کو روکنے اور متعدد مربتہ ووٹرز کی شناخت کے لیے قوانین متعارف کروانے کی کوشش کر چکی ہے، مگر مخالفین اسے 1965 میں نافذ ہونے والے ووٹنگ کے حقوق کے قانون سے متصادم قرار دیتے ہیں، کیوں کہ 1965 کے قانون کے تحت خواندگی کے ٹیسٹ اور دیگر رکاوٹوں کو دور کیا گیا تھا تاکہ امریکی سیاہ فام آبادی بھی ووٹ ڈالنے کے قابل ہوسکے۔

امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام ڈیموکریٹک صدر بارک اوباما بھی ریپبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ووٹر دھاندلی کے الزامات پر خاموش نہ رہ سکے۔ ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکی جمہوریت کی سب سے بہترین چیز سیاسی مقابلے میں ہونے والا جوش و جذبہ ہے۔

ہاں کبھی کبھی یہ تلخ بھی ہو جاتی ہے، مگر یہ تاریخ رقم رہی ہے کہ سیاسی مقابلے کے ختم ہو جانے کے بعد انتخابات میں شکست پانے والے جیتنے والے کو مبارکباد دیتے ہیں۔ اور اسی طرح جمہوریت مستحکم ہوتی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دھاندلی کے الزامات شواہد کے ساتھ لگائے جانے چاہیئں، اور اگر ٹرمپ جیتے تو ہیلری انہیں مبارکباد دیں گی اور میں انہیں امریکی صدر کے پوڈیم تک لاؤں گا۔

امریکی انتخابات سے متعلق کراچی میں تعینات قونصلیٹ کی ترجمان شارلینہ حسین مورگن نے چند دن قبل ایک آگاہی سیشن کا انعقاد کیا تھا۔ شارلینہ حسین مورگن کے والدین بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے تھے اور امریکا میں سکونت اور شہریت اختیار کر چکے ہیں۔

شارلینہ نے پاکستان میں تعیناتی سے قبل اردو زبان سیکھی اور آگاہی سیشن میں اردو زبان میں گفتگو کی کوشش بھی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدارتی انتخاب لڑنے کا اہل ہونے کی تین بنیادی شرائط ہیں۔ امیدوار امریکا کا پیدائشی شہری ہو، عمر کم از کم 35 سال ہو، اور 14 سال سے امریکا میں رہائش پذیر ہو۔

شارلینہ کے مطابق امریکا میں صدارتی انتخابات میں ووٹرز براہ راست صدر کو منتخب نہیں کرتے، بلکہ ہر ریاست اپنے اپنے قوانین اور طریقہءِ کار کے تحت صدارتی انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج (Electoral Collage) منتخب کرتی ہے، یعنی امریکی صدر کے انتخاب کے لیے بالواسطہ طریقہءِ انتخاب اپنایا جاتا ہے۔

الیکٹورل کالج کے افراد کی تعداد کیا ہوگی، اس کا تعین امریکا کی مرکزی حکومت کی قانون سازی کے تحت کیا جاتا ہے۔ اس وقت الیکٹورل کالج کے افراد کی تعداد 538 ہے۔ جس کے بعد ووٹ ڈالنے اور الیکٹورل کالج کے نمائندوں کے انتخاب کا طریقہ کار ہر ریاست کا اپنا اپنا ہے۔

کچھ ریاستوں میں اکثریت حاصل کرنے والے الیکٹورل کالج کی تمام نشستوں پر کامیاب قرار دیے جاتے ہیں، جبکہ بعض میں ووٹرز کے تناسب کے حوالے سے الیکٹورل کالج کی نشستیں تقسیم کی جاتی ہیں۔

شارلینہ کے مطابق ضروری نہیں کہ زیادہ عوامی ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار الیکٹورل کالج میں بھی اکثریت حاصل کرسکیں اور ایسا امریکی تاریخ میں چار مربتہ ہو چکا ہے۔ اور آخری مرتبہ یہ معاملہ ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار الگور کے ساتھ ہوا تھا۔ الگور اکثریتی ووٹ حاصل کرنے کے باوجود الیکٹورل کالج میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔

امریکی صدارتی انتخاب میں ہر ریاست اپنے اپنے طریقے سے الیکٹورل کالج کا انتخاب کرتی ہے اور یوں ہر ریاست اپنے قوانین کے مطابق پولنگ اور ووٹنگ کا نظام مرتب کرنے میں آزاد ہے۔

مگر امریکی صدارتی انتخاب میں یہ بات اہم ہے کہ عوام کسی بھی فرد یا خود کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ بیلٹ پیپر پر صدارتی امیدواروں کے ناموں کے علاوہ ایک خالی خانہ بھی موجود ہوتا ہے جس میں ووٹر خود کو یا کسی اور شخص کو صدارتی انتخاب کے لیے ووٹ دے سکتا ہے۔

شارلینہ آگاہی سیشن میں پوچھے گئے متعدد سوالات کا جواب دینے سے قاصر رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بطور امریکی سفارتی اہلکار امیدواروں پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتیں۔ مگر انتخابات میں دھاندلی کے بارے میں شارلینہ نے دعویٰ کیا کہ امریکی صدارتی انتخاب میں دھاندلی کی گنجائش صفر برابر ہے، جسے شرکاء تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔ شرکاء نے گھما پھرا کر سوالات کیے جس پر جواب ملا کہ یہ جمہوریت ہے۔

امریکا میں مخصوص ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن ریاستیں موجود ہیں جہاں طویل عرصے سے امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج ایک جیسے ہی رہتے ہیں مگر بعض ریاستوں کے ووٹرز اپنی رائے کو تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ ان ریاستوں کو سوئنگ اسٹیٹس کہا جاتا ہے۔ اوہائیو، انڈیانا، نیوجرسی، نیویارک، لوزیانا، ٹیکساس، فلوریڈا اور نیو ہیمپشائر سوئنگ اسٹیٹس کہلائی جاتی ہیں۔

سال 2000 کے صدارتی انتخابات میں ہونے والی کشیدگی اور تنازعے کو امریکی سیاست کا سب سے اہم باب قرار دیا جاتا ہے جب نائب صدر البرٹ آرنلڈ (الگور) گورنر جارج ڈبلیو بش کے مد مقابل تھے۔

عوامی ووٹنگ میں الگور نے 48.4 فی صد اور صدر بش نے 47.9 فی صد ووٹ حاصل کیے تھے، اور امریکی صدارتی نتائج کا انحصار فلوریڈا کی ریاست پر رک گیا تھا۔ فلوریڈا اسٹیٹ کو سال 2000 کے صدارتی انتخابات کے لیے سوئنگ اسٹیٹ کہا جاتا ہے، جہاں پہلے الگور کے کامیاب ہونے اور بعدِ ازاں جارج ڈبلیو بش کی کامیابی کا اعلان کیا گیا۔

اس طرح فلوریڈا اسٹیٹ کے الیکٹورل کالج کے تمام ووٹ جارج ڈبلیو بش کو مل گئے اور الگور عوامی اکثریتی ووٹ حاصل کرنے کے باوجود الیکٹورل کالج میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

الگور نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا۔ یہ آئینی، قانونی اور سیاسی جنگ کئی ماہ تک جاری رہی۔ دونوں امیدواروں کے حامیوں نے ریلیاں نکالیں، آمنے سامنے مظاہرے کیے اور عدالتوں میں کیس کی سماعت ہوتی رہی۔

بالآخر امریکی سپریم کورٹ نے مداخلت کر کے فیصلہ جارج بش کے حق میں دیا۔ بعض قانونی ماہرین تاحال اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ کیا ریاستی عملداری میں امریکی سپریم کورٹ مداخلت کرسکتی ہے۔

فلوریڈا ایک سوئنگ اسٹیٹ ہے اور وہاں پر اس وقت ریپبلیکن گورنر موجود ہے۔ اسی گورنر کو صدارتی انتخابات کے لیے اتنظامات کرنے ہیں۔ اگر اس ریاست سے ٹرمپ ہار جاتے ہیں تو کیا وہ اپنے ہی گورنر پر دھاندلی کا الزام عائد کریں گے؟ یہ ایسا سوال ہے کہ جس کا جواب ملنا مشکل ہے۔

امریکی جمہوریت میں صدارتی انتخابات کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر یوں لگتا ہے کہ امریکی سیاست نے پاکستانی سیاست سے سبق سیکھ لیا ہے۔ پاکستان میں ہر جماعت ہارنے پر دھاندلی کا رونا رونے بیٹھ جاتی ہے اور ہار جانے کے باوجود اپنی ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نفرت انگیز اور سخت گیر انتخابی مہم اور پھر دھاندلی روکنے کے لیے دستے بنانے کی ہدایت انتخابی معرکے میں کس قدر تشدد کو پروان چڑھا سکتی ہے اور کیا امریکا میں مقیم مسلمان، ہسپانوی امریکی، سیاہ فام اور دیگر نسلی اقلیت کے افراد بغیر کسی دباؤ اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکیں گے؟

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔