پاکستان

اہلسنت والجماعت کو اسلام آباد میں ریلی سے روک دیا گیا

اے ایس ڈبلیو جے کا دعویٰ ہے کہ ریلی کی منسوخی کے سلسلے میں کسی قسم کا سرکاری دباؤ نہیں تھا۔

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ نے ایک اور شرمندگی سے بچنے کے لیے جمعہ 4 نومبر کو کالعدم تنظیم اہل سنت و الجماعت (اے ایس ڈبلیو جے) کو اسلام آباد میں ریلی کی اجازت نہیں دی۔

دوسری جانب اے ایس ڈبلیو جے کا دعویٰ ہے کہ ریلی کی منسوخی کے سلسلے میں کسی قسم کا سرکاری دباؤ نہیں تھا۔

واضح رہے کہ گذشتہ ماہ 28 اکتوبر کو اے ایس ڈبلیو جے کو اسلام آباد میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود ریلی کے انعقاد کی اجازت دینے پر ضلعی انتطامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا، ریلی کے دوران فرقہ وارانہ نعرہ بازی بھی کی گئی تھی۔

بعدازاں اے ایس ڈبلیو جے نے حال ہی میں یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب پر کیے گئے میزائل حملے (جس کے حوالے سے ریاض کا کہنا تھا کہ میزائل کے ذریعے مکہ مکرمہ کو نشانہ بنایا گیا) کے خلاف پورے ملک میں 'تحفظ حرمین شرفین' ریلیوں کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔

مزید پڑھیں:حوثی باغیوں کا میزائل مکہ کے قریب مار گرایا گیا: سعودی اتحاد

اس حوالے سے میڈیا کو مبینہ طور پر بذریعہ ای میل اور ایس ایم ایس دعوت نامے بھی بھیجے گئے، جن پر درج تھا کہ اسلام آباد میں ریلی جمعے کی نماز کے بعد لال مسجد سے نکالی جائے گی۔

تاہم جمعہ 4 نومبر کو دن 11 بجے کے قریب میڈیا کو ایک اور پیغام ملا کہ احتجاجی ریلی کو منسوخ کردیا گیا ہے۔

اس ریلی کی منسوخی کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی، دوسری جانب کچھ میڈیا نمائندے صورتحال دیکھنے کے لیے لال مسجد پہنچے تاہم انھیں وہاں کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دی۔

اے ایس ڈبلیو جے کے ترجمان حافظ عنیب فاروقی کا کہنا تھا کہ ریلی پارٹی قیادت کی جانب سے منسوخ کی گئی تاہم ان کا کہنا تھا کہ انھیں اس اچانک فیصلے کے حوالے سے کوئی اندازہ نہیں ہے۔

حافظ عنیب فاروقی کا کہنا تھا کہ 'ہم نے کراچی کی صورتحال دیکھی ہے اور ممکن ہے کہ اعلیٰ قیادت نے اسلام آباد میں کسی دہشت گرد حملے کے خطرے کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا ہو۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم نے لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور اور متعدد چھوٹے شہروں سمیت پورے ملک میں ریلیوں کا انعقاد کیا ہے۔'

دوسری جانب اسلام آباد انتظامیہ کا کہنا تھا کہ حکومت پر اس جماعت کو ریلی کے انعقاد کی اجازت دینے کے معاملے پر شدید سیاسی اور سماجی دباؤ تھا۔

یہ بھی پڑھیں:دفعہ 144 کے باوجود ’کالعدم‘ اہل سنت والجماعت کی ریلی

ایک اسسٹنٹ کمشنر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، 'حکومت کو 28 اکتوبر کو اہل سنت و الجماعت کی ریلی کے انعقاد پر پہلے ہی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ورکرز کنونشن کے خلاف پولیس ایکشن کے ایک روز بعد منعقد کی گئی تھی۔'

دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر نے کہا، 'میں نے پہلے بھی یہ بات کی تھی اور میں اس حوالے سے کشمکش کا شکار تھا کہ کیا آبپارہ اسلام آباد کا حصہ نہیں ہے کہ ایک کالعدم جماعت جو چاہے یہاں کرسکتی ہے۔'

ان کا مزید کہنا تھا، 'صورتحال سے ظاہر ہے کہ قانون اور قانونی حیثیت کا کوئی مسئلہ نہیں، مسئلہ صرف حکومت کی مرضی کا ہے'۔

دوسری جانب اہل سنت والجماعت کا کہنا ہے کہ 28 اکتوبر کو ہونے والی ریلی پارٹی کا ایک روایتی ایونٹ تھا، جس کا انقعاد ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے اجازت ملنے کے بعد کیا گیا تھا۔

تاہم جمعہ 4 نومبر کی ریلی کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ اہل سنت و الجماعت نے بغیر کسی اجازت کے اپنی ریلی کا اعلان کردیا تھا۔

ان کا کہنا تھا، 'اس حوالے سے لال مسجد سے بھی کوئی این او سی نہیں لیا گیا تھا اور ہم نے انھیں دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا تھا کہ کوئی غیر قانونی سرگرمی سرانجام نہ دیں، جس کے بعد انھوں نے اسے روک دیا۔'

اس سے قبل گذشتہ برس مئی میں بھی اے ایس ڈبلیو جے نے یمن میں سعودی اتحاد کی جانب سے فوجی آپریشن کے آغاز پر ریلیوں کا آغاز کیا تھا۔

یہ خبر 5 نومبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی