دلی میں درؔد کی تلاش
درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ دلی نے حکمرانوں اور حاکم خاندانوں کے عروج و زوال کو دیکھا ہے۔ یہاں نہ صرف برِصغیر کی تاریخ کے رخ بدلے ہیں بلکہ تہذیب اور زبان کا بھی ارتقاء چلتا رہا ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ دلی کے نام سے اردو شاعری جڑی ہوئی ہے۔
اکثر اردو کو مغلیہ سلطنت سے منسلک کیا جاتا ہے جو کہ درست نہیں۔ اردو، مغلیہ دربار کے عروج سے پستی کے سفر کے دوران ابھری، اپنے پیر جمائے اور دربار میں چلی آئی۔ اسے ستم ظریفی کہیے کہ جہاں مغلیہ دربار کا زوال تھا، وہیں اردو بلندیاں طے کر رہی تھی۔
دلی کی تاریخ شاعروں سے بھری پڑی ہے۔ جو وہاں کے نہیں تھے، وہ وہاں بس گئے؛ جو وہاں کے تھے، وہاں سے چل دیے اور کچھ کے لیے آنے جانے کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔ برج بھاشا میں خسرو کی شاعری مقبول ہے اور ہندوستانی ادب کے سفر میں ایک اہم مقام سمجھی جاتی ہے۔
پھر میر تقی میر، غالب، مرزا سودا، مظہر جانِ جانان اور کئی شعراء سے دلی کا تعلق ایسے ہی رہا ہے جیسے آسمان کا ستاروں سے۔ لیکن آج ایک ایسے شاعر کی بات کی جائے جو اردو شاعری کے ایک زمانے کے علمبردار ہیں اور رہتی دنیا تک دلی سے ان کا یہ رشتہ قائم رہے گا۔