پاکستان

پاناما کیس: سپریم کورٹ بینچ کا نیب پر اظہار برہمی

نیب کے پروسیکیوٹر جنرل نے 5رکنی بینچ کے سامنے موقف اپنایا تھا کہ پاناما پیپرز کی تحقیقات نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

اسلام آباد: آف شور کمپنیوں میں اثاثے رکھنے کے الزام میں وزیر اعظم کی نااہلی کے لیے دائر مختلف درخواستوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے بینچ نے قومی احتساب بیورو(نیب) کے موقف پر برہمی کا اظہا رکیا۔

نیب کے پروسیکیوٹر جنرل وقاص قدیر نے پانچ رکنی بینچ کے سامنے موقف اپنایا تھا کہ پاناما پیپرز جس میں وزیر اعظم نواز شریف کے اہل خانہ کے بھی نام سامنے آئے ہیں، اس کی تحقیقات نیب دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

نیب کا کہنا تھا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے تحت کسی بھی جرم کے بادی النظر شہادت کی عدم موجودگی میں کارروائی کرنا قبل از وقت ہوگا۔

یہ موقف سن کر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور اس معاملے پر نیب کے رد عمل کو مایوس کن قرار دیا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جواب سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ نیب یہ توقع کرتا ہے کہ درخواست دہندہ نجی جاسوسوں کے ذریعے خود ہی شواہد اکھٹے کرے اور پھر تحقیقات کے لیے نیب کے پاس آئے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس: سپریم کورٹ نے فریقین سے ٹی او آرز مانگ لیے

انہوں نے پروسیکیوٹر جنرل سے کہا کہ وہ قومی احتساب آرڈیننس کے سیکشن 9(5) کو پڑھیں جو نیب کو ہراس سرکاری عہدے دار کے خلاف تحقیقات کا اختیار دیتا جس پر یہ الزام ہو کہ اس کے اثاثوں اور آمدنی کے ذرائع نامعلوم ہیں۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے زور دیا کہ ٹیکس چوری اور پاکستان سے پیسوں کی بیرون ملک منتقلی نیب کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔

چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ’آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کہ جب تک کوئی آپ کے پاس خود شواہد لے کر نہ آئے کیس کی تحقیقات کرنا آپ کی ذمہ داری نہیں‘؟

انہوں نے مزید کہا کہ ’نیب ایک قومی ادارہ ہے جس کے قیام کا مقصد اس قسم کی تحقیقات کرنا ہی تھا ، ہمیں بتائیں کہ پاناما پیپرز کے معاملے میں اب تک آپ نے کیا کارروائی کی ہے‘؟

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نیب کے پروسیکیوٹر جنرل کے موقف پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کے جواب سے ہم یہ سمجھے ہیں کہ آپ نے کچھ نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’آپ کا پیغام ہم اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ کوئی اتھارٹی اس معاملے کارروائی نہیں کرنا چاہتی اور اب ہم اس معاملے کو دیکھیں گے‘۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس: وزیراعظم سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری

اپنی رپورٹ میں نیب نے وضاحت کی کہ پاناما پیپرز میں جن 600 پاکستانیوں کے نام آئے ہیں ان تمام افراد کے خلاف تحقیقات شروع کرنا قانونی اتھارٹی سے تجاوز کرنے کے مترادف ہوگا کیوں کہ مذکورہ کام قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے تحت جرم کے زمرے میں نہیں آتا۔

یہ بھی بتایا گیا کہ ٹیکس چوری، پاکستان سے غیر قانونی انخلائے زر اور پاکستان سے آفشور کمپنیوں میں رقوم کی منتقلی کے الزامات کی تحقیقات متعلقہ ادارے کرسکتے ہیں جن میں فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان شامل ہیں۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے نیب میں دائر درخواستوں کے حوالے سے پروسیکیوٹر جنرل کے بتایا کہ درخواست گزاروں نے محض ان معلومات پر انحصار کیا ہے جو نجی لاء فرم میسرز موساک فونسیکا کی جانب سے جاری کیے گئے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ درخواستوں کے ساتھ ایسی کوئی شے منسلک نہیں کی گئی جس سے ان معلومات کے درست ہونے کو تقویت ملتی ہو لہٰذا ان پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔

نیب کے جواب میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاناما پیپرز کے معاملے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے رکن عارف علوی نے کافی بحث کی جس کے بعد متعلقہ ریگولیٹرز اور اسٹیک ہولڈرز کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے جن میں اسٹیٹ بینک، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، ایف بی آر ، وزارت خارجہ، نیب اور ایف آئی اے شامل ہیں۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین نے بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا کہ انہوں نے بھی اس معاملے میں خلاف قانون عمل کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔

رپورٹ میں وضاحت کی گئی کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ڈیٹا جمع کرنے کے وسیع نظام بشمول گلوبل نیٹ ورکس کے ضرورت ہوگی۔

یہ بھی بتایا گیا کہ کسی دوسرے ملک سے اس معاملے میں معاونت لینے سے قبل ضروری ہوتا ہے کہ پہلے اس حوالے سے مقامی سطح پر ہونے والی تحقیقات کا تبادلہ کیا جائے اور جس خاص جرم سے متعلق معاونت درکار ہو وہ اس ملک کے قانون میں بھی جرم ہونا چاہیے۔

نیب نے موقف اختیار کیا کہ متعلقہ اداروں کی جانب سے ابتدائی تحقیقات مکمل کیے جانے کے بعد ہی یہ عمل شروع ہوسکے گا۔

یہ خبر 2 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی