دہشت گردوں کا علاج کیس: ڈاکٹر عاصم کی ضمانت منظور
کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے دہشت گردوں کے علاج معالجے کے کیس میں سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) سندھ کے چیئرمین ڈاکٹر عاصم حسین سمیت 4 ملزمان کی ضمانت منظور کر لی۔
ڈاکٹر عاصم حسین کے علاوہ جن ملزمان کی ضمانت منظور کی گئی، ان میں پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے انیس قائمخانی، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رؤف صدیقی اور پاسبان پاکستان کے عثمان معظم شامل ہیں۔
سندھ ہائیکورٹ نے ملزمان کو 5،5 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا بھی حکم دیا۔
ڈاکٹر عاصم حسین کو گذشتہ برس 26 اگست کو کرپشن اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات کے تحت اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سندھ کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
مزید پڑھیں : ایچ ای سی چیئرمین ڈاکٹر عاصم حسین 'زیرِحراست'
بعدازاں ان کے خلاف کرپشن، دہشت گردوں کی مالی معاونت اور ان کے علاج کے الزامات پر کراچی کے نارتھ ناظم آباد تھانے میں انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔
انھیں عدالتی حکم پر وقتاً فوقتاً تحقیقات کے لیے ریمانڈ پر رینجرز اور پولیس کے حوالے کیا جاتا رہا، دوسری جانب ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) میں کرپشن ریفرنسز بھی دائر کیے جاچکے ہیں اور نیب ان سے ہسپتالوں کے لیے زمین پر قبضے، ہسپتال کے نام پر سستے داموں زمین کے حصول سمیت ضیاء الدین ٹرسٹ کا غلط استعمال کرتے ہوئے اربوں روپے غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھجوانے کی تفتیش کررہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رینجرز، پولیس کے بعد ڈاکٹر عاصم سے نیب کی تفتیش
دوسری جانب رواں برس جولائی میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف دہشت گردوں کے علاج اور پناہ دینے سے متعلق کیس میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں وسیم اختر اور رؤف صدیقی، پاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس قائم خانی اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما قادر پٹیل کی ضمانت میں توثیق مسترد کردی تھی، جس کے بعد ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
یہاں پڑھیں:ڈاکٹرعاصم کیس: انیس قائم خانی، وسیم اختر، قادر پٹیل گرفتار
اس کیس کے سلسلے میں مرکزی ملزم ڈاکٹر عاصم حسین اور پاسبان کے سیکریٹری جنرل عثمان معظم پہلے ہی زیر حراست تھے۔
پاسبان پاکستان کے سیکریٹری جنرل عثمان معظم کو رینجرز نے گذشتہ برس 20 جولائی کو حراست میں لیا تھا، جس کے ایک ماہ بعد 28 اگست کو انہیں عدالت میں پیش کیا گیا. رینجرز نے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے الزامات عائد کرتے ہوئے ان کا 90 روز کا ریمانڈ لیا جس کے بعد 28 نومبر کو ان کو پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔