پاکستان

'ہمیں بھی خواتین سمجھا جائے'،خاتون پولیس افسر کی پکار

حال ہی میں ایک ویڈیومیں اسلام آباد پولیس کی خاتون افسرکو پی ٹی آئی کارکن پرتشدد کرتےدیکھا گیا، یہ تصویرکا محض ایک رخ ہے۔

رواں ماہ 27 اکتوبر کی رات کے بعد سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وہ ویڈیو تو سب نے ہی دیکھی ہوگی، جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے یوتھ کنونشن پر چھاپے کے بعد اسلام آباد پولیس کی ایک 'ظالم' خاتون افسر پی ٹی آئی کی ایک خاتون کارکن پر بظاہر تشدد کرتی نظر آئیں، جبکہ پی ٹی آئی ورکر خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد پولیس کو بھی برا بھلا کہتی نظر آئیں۔

ان خاتون کی شناخت بعدازاں سماویہ طاہر کے نام سے ہوئی ۔

مذکورہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خاتون پولیس اہلکار نے سماویہ طاہر کو پکڑ رکھا ہے اور وہ چلاتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ 'آپ لوگوں کو شرم آنی چاہیئے، یہ ہیں ہمارے قانون کے محافظ، جو عورتوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں' وغیرہ وغیرہ۔

اس ویڈیو کے بعد ہر طرف سے اسلام آباد پولیس پر تنقید کی بارش ہوگئی، جس نے خواتین کو بھی نہیں چھوڑا اور ان پر لاٹھیوں اور ڈنڈوں کی بارش کردی۔

لیکن یہ تصویر کا محض ایک رخ ہے، دوسرے رخ کی جانب یا تو کسی نے توجہ نہیں دی یا پھر بدقسمتی سے ہماری پولیس کا تاثر ویسے ہی خراب ہے، لہذا سب نے اسلام آباد پولیس کو ہی قصور وار سمجھا ہوگا۔

یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے دی گئی 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کی کال میں محض گنتی کے چند دن رہ گئے ہیں۔

مزید پڑھیں:اسلام آباد دھرنا: پی ٹی آئی اور حکومت کی 'تیاریاں'

عمران خان نے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے کا کہہ رکھا ہے، جہاں 2 نومبر کو پی ٹی آئی پاناما لیکس اور کرپشن کے خلاف دھرنا دینے کا ارادہ رکھتی ہے، وہیں حکومت کی جانب سے بھی 'تیاریاں' اپنے عروج پر ہیں اور اسلام آباد میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔

دوسری جانب ضلعی انتظامیہ کی جانب سے شہر میں 2 ماہ کے لیے دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد جلسے جلوسوں پر بھی پابندی عائد ہے اور لاؤڈ اسپیکرز کے استعمال اور اسلحے کی نمائش پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے، لہذا اس پابندی کے باوجود یوتھ کنونشن کے انعقاد پر پولیس کی جانب سے چھاپہ مارا گیا اور تحریک انصاف کے درجنوں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی کے 50 کارکن گرفتار،ملک گیر مظاہروں کا اعلان

اس موقع پر پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے سماویہ طاہر کے واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’پولیس نے خواتین کارکنوں پر تشدد کیا اور لاٹھیاں برسائیں، پولیس بتائے کہ نہتی خواتین پر ہاتھ کیوں اٹھایا جارہا ہے؟‘

بعدازاں بنی گالا میں اپنی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے مذکورہ خاتون کارکن کی شان میں تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔

عمران خان نے کہا، 'جس طرح ہماری نظریاتی خاتون کارکن (سماویہ طاہر) کل شام کو کھڑی ہوئی ہیں، سارے پاکستان نے دیکھا ہے، انھوں نے ہمارے کارکنوں کو نہیں بلکہ پاکستانی خواتین کو ایک پیغام بھیجا ہے کہ دیکھیں قومیں تب بنتی ہیں جب وہ اپنے حق کے لیے کھڑی ہوتی ہیں، جب وہ کرپٹ اور جابر حکمرانوں کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں، جب وہ پولیس کے ڈنڈوں سے نہیں ڈرتیں۔'

ساتھ ہیں انھوں نے اسلام آباد پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، 'کیا آپ نے خیبرپختونخوا کی پولیس کو دیکھا ہے، خیبرپختونخوا کی پولیس غیر سیاسی ہے اور قانون پر چلتی ہے، پنجاب پولیس کو کے پی پولیس سے سبق سیکھنا چاہیے۔'

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح پنجاب پولیس نے کل خواتین پر ڈنڈے چلائے، انھیں اس پر شرم آنی چاہیے، ساتھ ہی انھوں نے پنجاب پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ شریف خاندان کے نوکر نہیں ہیں، آپ کو تنخواہ پاکستانی عوام کے ٹیکس سے ملتی ہے۔

لیکن بحیثیت ایک انسان اور ایک قانون پسند شہری، ہمیں اس خاتون پولیس اہلکار کا موقف بھی سننا چاہیے، جنھیں اس وائرل ویڈیو میں پی ٹی آئی کارکن پر 'تشدد' کرتا دیکھا گیا۔

اسلام آباد پولیس کے فیس بک پیج پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں مذکورہ خاتون پولیس افسر کا کہنا تھا، 'میں 17 سال سے اسلام آباد پولیس میں ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہوں، چاہے گرمی ہو یا سردی، ہم ان جگہوں پر بھی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں جہاں پر عام خواتین جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتیں اور چونکہ ہم سرکاری ملازمین ہیں، لہذا ہمارا کام ہے کہ ہم ریاستی قوانین کا اطلاق کروائیں۔'

خاتون پولیس افسر نے کہا، 'ڈپٹی کمشنر صاحب کی جانب سے دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد ہمارا فرض ہے کہ ہم شہر میں اس کا اطلاق کروائیں۔'

مذکورہ واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے بتایا، 'یہ واقعہ 27 اکتوبر کی رات پیش آیا، جب میں نے دیکھا کہ ایک خاتون نے بڑا سا پتھر اٹھا رکھا ہے اور وہ ایک مرد پولیس اہلکار کو ٹارگٹ کرکے انھیں پتھر مارنے کی کوشش کر رہی تھیں، میں نے انھیں روکنے کی کوشش کی، جس کے ردعمل میں اس خاتون نے میرے چہرے اور گردن پر نوچا، جس سے نشان پڑ گئے۔'

ان کا کہنا تھا، 'اگر ان خاتون کو میرے ہاتھ سے کوئی چوٹ لگی ہے تو وہ مجھے دکھا سکتی ہیں، میں نے جو کچھ بھی کیا وہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے کے لیے کیا۔'

انھوں نے مزید کہا، 'ہم پولیس آفیسرز ضرور ہیں، ہم نے یونیفارم بھی پہنا ہوا ہے لیکن ہم بھی خواتین ہیں، ہمارے بھی وہی حقوق ہیں جو عام خواتین کے ہوتے ہیں، ہمیں بھی خواتین سمجھا جائے۔'

خاتون پولیس افسر کے مطابق، 'اسلام آباد پولیس میں خواتین کو اس لیے بھرتی کیا جاتا ہے تاکہ وہ خواتین کو ڈیل کرسکیں، مجھے بہت افسوس ہے کہ میرے اس عمل کو پتھراؤ کا نام دیا گیا، لیکن اگر میں ایسا نہ کرتی تو وہ دوسرے اہلکاروں کو پتھر مار سکتی تھیں۔'

آخر میں ان کا کہنا تھا، 'ہمارا بھی ایک تقدس ہے اور ہمیں بھی وہ سارے حقوق فراہم کیے جانے چاہئیں جو دیگر خواتین کو حاصل ہیں'۔

بعدازاں سماویہ طاہر نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ 'مجھ پر ایک خاتون پولیس افسر پر تشدد کرنے کا الزام عائد کیا گیا، لیکن میری ان کے ساتھ کسی قسم کی ذاتی دشمنی نہیں ہے، جو کچھ ہوا، وہ سب نے دیکھا اور میں نے اپنے بچاؤ میں یہ سب کیا۔'

ان کا مزید کہنا تھا، 'ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے مجھے پتہ ہے کہ ایک خاتون کی کیا عزت ہے، عورت کوئی بھی ہو چاہے وہ کوئی پولیس افسر ہو یا ہم خود ہوں، ہم سب کو اپنے دوپٹے عزیز ہیں اور عزت سب کی برابر ہے'۔

ظالم کون ہے اور مظلوم کون، اس بات کا فیصلہ محض ایک ویڈیو دیکھ کر نہیں لگایا جاسکتا۔ ہمیں حقیقت اور پس منظر کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنے پڑے گا کہ کون غلط تھا اور کون صحیح، 'تشدد' کا نشانہ بننے والی پی ٹی آئی کی سماویہ طاہر یا وہ خاتون پولیس افسر جو یونیفارم میں ملبوس اپنی ڈیوٹی انجام دے رہی تھی اور جس کا کام 'اوپر کے احکامات' کے عین مطابق شہر اقتدار میں امن کا بول بالا کرنا تھا۔