اچھڑو تھر: جھیلوں اور سفید ٹیلوں کا ریگستان
اچھڑو تھر: جہاں کوئی مور نہیں ناچتا
کچھ عرصہ پہلے کسی نے مجھ سے پوچھا، ’’آپ نے تھر دیکھا ہے؟‘‘
میں نے کہا، ’’میں نے تھر دیکھا ہے۔‘‘
پھر پوچھا،’’نیم کے ہرے بھرے پیڑ کی چھاؤں میں مور کو ناچتے دیکھا ہے؟’’
میں نے جواب دیا،’’نیم کے گھنے پیڑ کے نیچے مور کو ناچتے بھی دیکھا ہے۔‘‘
’’مگر کیا تم نے وہ تھر دیکھا ہے جہاں پھیکا سا نیم کا پیڑ تو ہے مگر وہاں مور نہیں ناچتا؟‘‘
اور پھر میں اُس نیم کے پیڑ کو دیکھنے اور وہ صحرا دیکھنے نکل پڑا جہاں ہریالی کسی محبوب کی طرح روٹھ گئی ہے اور جہاں مور نہیں ناچتا۔
ابھی سورج نے اپنی کرنیں بکھیرنی شروع بھی نہیں کی تھی، کہ ہم نے سانگھڑ کا ایک چھوٹا شہر کھپرو پیچھے چھوڑا۔ موسم سرما کے ابتدائی دن تھے، اس سرد موسم کی تو کیا ہی بات تھی۔
چائے کے ہوٹل کھُل چکے تھے اور چولہوں سے زرد آگ کی لپٹیں نکلتیں تو ان کی گرمی ہمیں گاڑی کے اندر تک محسوس ہوتی اور سرد موسم میں یہ ذرا بھر گرمائش بھی تسکین کا باعث بن رہی تھی۔
چند کلومیٹرز کے بعد آپ جیسے ہی نارو کے قدیم بہاؤ سے گذرتے ہیں تو آپ طبعی طور پر ایک زرخیز اور قدیم نارا ویلی کو خدا حافظ کہہ چکے ہوتے ہیں، کیوں کہ نارا کا بہاؤ شاید وہ آخری لکیر ہے جس کو پار کرنے کے بعد سارا منظرنامہ تبدیل ہو جاتا ہے، جبکہ ساری زرخیزی نارا ویلی کے مغرب میں رہ جاتی ہے اور سارا بنجر پن مشرق میں پھیلتا جاتا ہے۔
اس فطری تقسیم کے بعد ایک چھوٹا شہر ہتھونگو شروع ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ اسی مذکورہ صحرا کا گیٹ وے ہے جسے اچھڑو تھر (سفید تھر) کہا جاتا ہے۔ یہ گیٹ وے ایک ٹیلے پر بنا ہے، ہم جب وہاں پہنچے تو صبح کی ٹھنڈی ہوا اس چھوٹے سے شہر کی گلیوں میں اپنے ساتھ ریت لیے چل رہی تھی۔