کراچی کا قاتل ٹریفک جام
2005 میں جامعہ کراچی شعبہ ابلاغِ عامہ کی ایک طالبہ یونیورسٹی میں پہلے سیمسٹر میں ملنے والے اسائنمنٹ اور گروپ ڈسکشن کے بعد گھر چلی گئی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ اب سے کچھ دیر بعد اٹھنے والا اپینڈکس کا درد شارعِ فیصل پر ٹریفک جام میں پھنسی ایمبولینس میں اس کی جان لے لے گا۔
حاکم وقت کی سواری گزرنی تھی، روڈ اس لیے بند تھا۔ طالبہ کی ہلاکت پر یونیورسٹی میں طلبہ نے احتجاج کیا، مگر دال نہ گلنے والی تھی۔ اساتذہ نے سمجھا بجھا کر معاملہ رفع دفع کروا دیا۔
2005 اور 2016 کے درمیان یوں تو بہت کچھ تبدیل ہوا لیکن جو چیز نہ بدلی، وہ تھی کراچی شہر کی ٹریفک کی حالت۔ شاہی سواریوں کی حفاظت کے لیے بند راستوں نے کہیں بچی کی جان لی تو کہیں سڑک کنارے ولادت بھی ہوئی۔
ان 11 سالوں کے دوران سڑکوں پر لاکھوں گاڑیوں کا اضافہ ہوا، مگر صرف چند ہی سڑکیں کشادہ کی گئیں اور گنے چنے فلائی اوور اور انڈر پاس تعمیر کیے گئے۔ کراچی کے شہریوں کے ساتھ مزید ظلم یہ ہوا کہ 2009 میں بلدیاتی نظام کے خاتمے کے بعد بمشکل ہی اس سلسلے میں کوئی ترقیاتی کام ہوا ہو۔ چار سال سے زیرِ تعمیر ملیر ہالٹ فلائی اوور منصوبہ اس کی واضح مثال ہے۔
صبح آٹھ سے دس یا پھر شام چار سے رات نو، دس کراچی میں گاڑیاں دوڑتی نہیں بلکہ رینگتی ہیں۔ اور اس دوران وی آئی پی موومنٹ، دھرنا، مظاہرہ یا کوئی بھی حادثہ ہوجائے، تو لمحوں میں ایسا ٹریفک جام جنم لیتا ہے جو گھنٹوں جام رہتا ہے۔
کراچی میں بچھے سڑکوں کے جال کی لمبائی کل ملا کر 15 ہزار کلومیٹر سے بھی زائد ہے اور اعداد و شمار کے مطابق ہر ماہ کم از کم 16 ہزار سے زائد نئی گاڑیاں سڑکوں پر آتی ہیں۔
سمندر کنارے بسے شہر کے ایک کنارے سے دوسرے تک 25 لاکھ سے بھی زیادہ افراد ذاتی اور پبلک ٹرانسپورٹ کی مدد سے انگلش اور اردو دونوں میں سفر کرتے ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے سفر کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو ناکافی کہنا بھی شاید ناکافی ہوگا۔ کروڑوں کی آبادی کے لیے صرف چند ہزار منی بسیں اور کوچز دستیاب ہیں جو مخصوص روٹس پر چلتی ہیں، اور مرغیوں کے دڑبے سے زیادہ بھری ہوئی ہوتی ہیں۔
اگر پبلک ٹرانسپورٹ کا یہ حشر ہے، تو ظاہر ہے کہ عوام اپنے استعمال کے لیے زیادہ سے زیادہ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں خریدیں گے۔ اس سے سڑکوں پر رش بڑھتا ہی رہے گا۔ ہاں سڑکیں کشادہ کی جانی چاہیئں، مگر یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔
مسئلے کا مستقل حل پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ہے۔ دنیا بھر میں سب وے، میٹرو ٹرین، میٹرو بس اور ہمارے یہاں سرکلر ریلوے کے نام سے چلائی جانے والی سروس اس مسئلے کو بڑی حد حل کر سکتی ہے۔
یوں تو کراچی میں سرکلر ریلوے ٹریک اب چائنا کٹنگ میں دفن ہوگیا ہے، لیکن اس کے باوجود گلشن حدید، لانڈھی، ملیر اور ڈرگ روڈ سے سٹی اسٹیشن تک لوکل ٹرینیں چلا کر بڑی حد تک مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ سمندر کنارے بسے شہر میں تقسیم سے پہلے اور بعد میں بہت کچھ تھا، لیکن پچھلی کچھ دہائیوں میں رفتہ رفتہ ہونے والے قبضے نے شہر کی زمین نگلنی شروع کی تو کچھ نہ بچا۔
شہر میں سرکلر ریلوے کا نظام پہلے سے موجود ہے، اس لیے لاہور کے برعکس یہاں تاریخی ورثے کو نقصان پہنچنے کا کوئی خطرہ نہیں۔ کراچی شہر منصوبہ بندی سے بسایا گیا شہر ہے۔ شہر میں نصف صدی قبل ریلوے ٹریفک کا ہونا بڑی بات ہے۔ اگر نہ ہوتی اور اب پہلی دفعہ بنائی جا رہی ہوتی تو کیا مسائل ہوتے ہیں، اس کا اندازہ لاہور میں زیرِ تعمیر اورینج ٹرین منصوبے سے لگایا جا سکتا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے گذشتہ سال شروع کیا جانے والا میٹرو بس منصوبہ نہایت خوش آئند اقدام ہے، مگر یہ بھی کراچی کے عوام کو مکمل طور پر ریلیف فراہم نہیں کر سکے گا۔ گرین لائن کی تکمیل کے بعد باقی تین روٹس کی فوری تعمیر کے ساتھ ساتھ کراچی شہر میں سرکلر ریلوے کو مکمل طور پر بحال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ورنہ اگلے چند سالوں میں ٹریفک جام کے دورانیوں میں اضافہ ہوگا، جس سے نہ صرف شہریوں کے وقت اور پیسوں کا زیاں ہوگا، بلکہ ایمبولینسوں میں پھنسے پھنسے موت واقع ہوجانے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگا۔
حسن جواد گزشتہ نو سال سے شعبہءِ صحافت سے وابستہ ہیں۔ اردو اور انگلش زبان میں صحافت کا تجربہ رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔