طاہر القادری کا تحریک انصاف کے دھرنے میں شرکت کا اعلان
اسلام آباد: پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان تحریک انصاف کے دو نومبر کے احتجاج میں شرکت کا اعلان کردیا۔
ڈان نیوز کے مطابق طاہر القادری کا کہنا ہے کہ انھوں نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دی گئی دعوت کو اصولی بنیادوں پر قبول کیا ہے.
اس سے قبل چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ڈاکٹر طاہر القادری سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے دو نومبر کو اسلام آباد 'لاک ڈاؤن' میں شرکت کی دعوت دی تھی، جو انھوں نے قبول کرلی۔
طاہر القادری کا کہنا تھا کہ کرپشن کے خلاف جنگ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کا مشترکہ مقصد ہے اور ان کا عمران خان سے سیاسی اور اخلاقی رشتہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کئی 'مقاصد' مشترک ہیں۔
مزید پڑھیں: پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت اسلام آباد دھرنے سے ایک دن قبل
واضح رہے کہ عمران خان نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو ٹاسک دیا تھا کہ طاہر القادری کو دھرنے میں شرکت پر رضامند کریں۔
پی ٹی آئی نے تمام جہموری قوتوں کو ملک میں جمہوریت کے استحکام کیلئے حکومت مخالف تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔
خیال رہے کہ ستمبر میں پی اے ٹی کے سربراہ طاہر القادری نے اپنے ایک اعلان میں پی ٹی آئی کے رائے ونڈ مارچ سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
اس موقع پر طاہر القادری نے پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے جاتی امراء پر احتجاج کی مخالفت کی تھی۔
پلان بی
اسلام آباد کو بند کرنے کے حوالے سے نکالی جانے والی ریلی کے دوران کارکنوں کی گرفتاری کی صورت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ’پلان بی‘ بھی جاری کردیا۔
پارٹی کے سینئر رہنما نے بتایا کہ بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش پر ہونے والے اجلاس میں کارکنوں کو ہدایات دی گئیں کہ اگر احتجاج کے دوران پنجاب حکومت سرگرم رہنماؤں کو گرفتار کرے تو 200 سے زائد کارکن فوری طور پر متعلقہ پولیس اسٹیشن پہنچیں، اس کا گھیراؤ کریں اور وہاں دھرنا دے دیں۔
اس سے قبل عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ جب بھی نواز شریف پر کوئی دباؤ پڑتا ہے کنٹرول لائن پر ماحول گرم ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’نریندر مودی کی جانب سے بار بار حملے ہورہے ہیں، جو زبان بھارت پاکستان کیخلاف بول رہا ہے وہی امریکا بھی بولنے لگا ہے، بھارت کی طرح امریکا نے بھی افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا الزام آئی ایس آئی پر لگادیا ہے اور آئی ایس آئی پر الزام لگنے کا مطلب فوج پر الزام لگنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف
دوسری جانب پی پی پی نے پی ٹی آئی کے کارکنوں پر تشدد اور گرفتاریوں کی صورت میں اسلام آباد دھرنے میں شرکت کا عندیہ دیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 2 نومبر کو ہونے والے احتجاج کا حصہ نہیں ہوگی تاہم اگر سیاسی کارکنوں پر 'تشدد' کیا گیا تو ہم اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرسکتے ہیں۔
اعتزاز احسن کا کہنا تھا، 'ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان درست راستے پر جارہے ہیں اور ان کا نقطہ نظر درست ہے۔'
ادھر وفاقی وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید نے 2 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اسلام آباد دھرنے کے حوالے سے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کارِ سرکار میں مداخلت کرنے والوں کو پاکستان میں دستاب قوانین کے ذریعے روکا جائے گا۔
پرویز رشید کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ دارالحکومت میں معمولات زندگی برقرار رکھے اور اسلام آباد کے شہریوں کی جانب سے بھی یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ہماری زندگیوں میں خلل نہ پڑنے دیا جائے اور اگر کوئی خلل ڈالتا ہے تو اسے روکا جائے۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اعتزاز احسن کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ حکومت پر انگلیاں اٹھانے والوں میں عمران خان اور اعتزاز احسن سرفہرست ہیں۔
یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لاء فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا غیر معینہ مدت کیلئے ہوگا، نعیم الحق
ان دستاویزات میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔
پاناما انکشافات کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے تھے اور وزیراعظم کے بچوں کے نام پاناما لیکس میں سامنے آنے پر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔
بعدازاں پاناما لیکس کی تحقیقات کی غرض سے حکومت اور اپوزیشن کی 12 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، حکومت اور اپوزیشن میں اس حوالے سے متعدد اجلاس ہوئے مگر فریقین اس کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پر اب تک متفق نہ ہو سکے۔
تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ حکومت پاناما لیکس کی آزادانہ تحقیقات کروانے کے لیے اپوزیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) کو تسلیم کرے، دوسری جانب انھوں نے اپنی تحریک احتساب کا بھی آغاز کر رکھا ہے اور اگلے ماہ 2 نومبر کو پی ٹی آئی اسلام آباد میں احتجاج کرنے جارہی ہے۔
عمران خان کا مطالبہ کہ وزیراعظم نواز شریف یا تو استعفیٰ دیں یا پھر خود کو احتساب کے سامنے پیش کردیں۔
گذشتہ روز چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان نے اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اداروں سے انصاف نہ ملنے کے بعد تحریک انصاف کے پاس سڑکوں پر نکلنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا اور اگر اس کے نتیجے میں کوئی تیسری قوت آگئی تو اس کے ذمہ دار نواز شریف ہوں گے۔
عمران خان نے یہ بھی کہا کہ حکومت جان بوجھ کر فوج کو بدنام کررہی ہے۔