نقطہ نظر

غیر قانونی ڈی ٹی ایچ کا قانونی متبادل کیا ہے؟

اگر پاکستان میں ایک معیاری ڈی ٹو ایچ سروس شروع کردی جائے تو پاکستانی صارفین ایک غیر قانونی سروس کا سہارا کیوں لیں گے؟

پاک بھارت کشیدگی کی ہر لہر اپنے پیچھے ہمیشہ ایسے اثرات چھوڑ جاتی ہے جن کا براہِ راست نشانہ دونوں اطرف رہنے والا ایک عام آدمی ہی بنتا ہے۔ جہاں ایک طرف سفارتی تعلقات متاثر ہوتے ہیں وہاں باہمی تجارت اور شوبز جیسے دیگر شعبے بھی متاثر ہوتے ہیں۔

اس بار کشیدگی کی حالیہ لہر میں سب سے پہلا نزلہ بھارت میں کام کر رہے پاکستانی فنکاروں پر گرا، پاکستانی فنکاروں پر پابندی کے حق میں باقاعدہ احتجاجی تحریکیں چلائی گئیں، جس پر بولی وڈ کے فلم سازوں اور فنکاروں کی طرف سے ملا جلا مؤقف سامنے آیا۔

میڈیا و فلم انڈسٹری کی اکثر شخصیات اس قسم کی پابندی کے حق میں نہیں تھیں، لیکن دباؤ میں آکر انڈین موشن پکچرز پروڈیوسر ایسوسی ایشن نے پاکستانی فنکاروں پر پابندی عائد کر دی اور پابندی کے ختم کیے جانے کو پاک بھارت تعلقات کی بحالی سے مشروط کر دیا۔

وہاں یہ عمل ہوا تو یہاں پاکستان میں بھی رد عمل دیکھنے کو ملا جب انڈین ڈی ٹی ایچ کے کاروبار پر پاکستان میں پابندی کا فیصلہ کیا گیا اور پیمرا کی طرف سے 15 اکتوبر کے بعد ڈی ٹی ایچ کے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا ہے۔

پڑھیے: انڈیا کے غیر قانونی ڈائریکٹ براڈ کاسٹ کے خلاف کارروائی

ڈی ٹو ایچ مخفف ہے Direct to Home کا۔ کمیونیکیشن کی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے کہ ایک مخصوص رقم کے عوض گھر بیٹھے صارف کا سیٹلائیٹ ٹی وی چینل تک رسائی حاصل کرنا۔ پاکستان میں کیبل ٹی وی کا آغاز 1990 کی دہائی میں ہوا۔ شہروں میں اکثریت کیبل ٹی وی دیکھتی ہے لیکن خراب تصویر اور آواز نیز چینلز کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے عوام ہمیشہ کیبیل ٹی وی سروس سے نالاں رہتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ بھی کیبل سے بیزاری کی ایک بڑی وجہ ہے کبھی بجلی غائب تو کبھی کیبل بند۔

ایسے میں ڈی ٹی ایچ سروس نے صاف تصویر اور آواز کی بہتر کوالٹی کی بدولت پاکستان میں جلد مقبولیت حاصل کرلی۔ لیکن مجھ سمیت ایک عام پاکستانی شاید آج سے پہلے یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ سروس پاکستان میں غیر قانونی ہے۔

ملک کے طول و عرض میں اس وقت لاکھوں افراد اس کاروبار سے منسلک ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ کاروبار پاکستان میں غیر قانونی تھا تو اب تک سرِعام کیوں اور کیسے چلتا رہا؟ کیا متعلقہ ادارے اب تک سو رہے تھے حالانکہ ہر شہر میں پوری پوری مارکیٹیں ڈی ٹی ایچ سروس فراہم کرنے والے سامان سے بھری پڑی ہیں اور شہر شہر ڈی ٹی ایچ کا ریچارج کرنے والے موجود ہیں.

کیوں کہ یہ سروس اور اس سے متعلقہ سامان غیر قانونی ہے اس لیے یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ سامان بھارت سے اسمگل ہو کر آ رہا تھا، جو بذاتِ خود متعلقہ ادارے کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

نہ صرف صارفین گھروں میں ڈی ٹی ایچ کے سیٹلائیٹ چلا رہے ہیں بلکہ کیبل آپریٹر ڈی ٹی ایچ کے چینل کیبل سروس پر بھی چلا رہے ہیں، مگر کریک ڈاؤن کا خیال صرف پاکستانی فنکاروں پر پابندی لگنے کے بعد آیا، اس سے پہلے نہیں.

مزید پڑھیے: پیمرا نے بھارتی چینلز چلانے پر شرائط عائد کر دیں

اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ اگر پاک بھارت کشیدگی نہ ہوتی، اور بھارت میں پاکستانی فنکاروں کے گرد گھیرا تنگ نہ کیا جاتا تو انڈین ڈی ٹی ایچ ایسے ہی بلا روک ٹوک چلتے رہتے.

کیا غیر قانونی ہونے کے باوجود گزشتہ کئی سالوں سے ڈی ٹی ایچ کے سامان کی فروخت اور اس سروس کا پاکستان میں کامیابی سے چلنا پیمرا کے علم میں نہ تھا؟ اگر علم میں تھا تو آج سے پہلے اس کے خلاف کار روائی کیوں نہ کی گئی؟

اب جب لاکھوں لوگوں کا کروڑوں روپیہ اس کاروبار میں لگا ہوا ہے، تو ایسے وقت میں بیک جنبش اس کاروبار پر پابندی لگا دینا ان افراد کا معاشی قتل نہ ہوگا؟ آخر ہم کسی غیر قانونی کاروبار کے جڑ پکڑنے کے بعد ہی اس کے سدِباب کا کیوں سوچتے ہیں؟

میں ہرگز اس غیر قانونی سروس کو پاکستان میں چلانے کے حق میں نہیں، لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستانی سیٹلائیٹ ناظرین انڈین چینلز اور ڈی ٹی ایچ کو ترجیح دیتے ہیں؟ اب تک کیوں پاکستان میں ڈی ٹی ایچ سروس شروع نہیں کی جا سکی؟ بھارت میں اس وقت 9 ڈی ٹی ایچ سروسز چل رہی ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان ابھی تک ایک بھی ڈی ٹی ایچ سروس کی ابتدا نہیں کر سکا ہے۔

اگر ایک معیاری ڈی ٹی ایچ سروس پاکستان میں شروع کردی جائے تو پاکستانی سیٹلائیٹ ناظرین کیونکر ایک غیر قانونی سروس کا سہارا لینے پر مجبور ہوں گے؟

اس ضمن میں عرض کرتا چلوں کہ 2003 سے پاکستان میں ڈی ٹی ایچ سروس لانچ کرنے کی خبریں گردش میں ہیں مگر اب تک اس حوالے سے عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

جانیے: انڈیا میں پاکستانی ڈراموں پر بھی پابندی ؟

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 50 لاکھ کے قریب انڈین ڈی ٹی ایچ صارف ہیں، جن سے بھارت سالانہ تقریباً 30 کروڑ ڈالر پاکستان سے کما رہا ہے۔ ان سروسز میں ڈش ٹی وی، وڈیو کون، ٹاٹا اسکائے، ایئر ٹیل، ریلائنس ڈیجیٹل ٹی وی شامل ہیں۔

یہی سہولت اگر پاکستان میں فراہم کر دی جائے تو غیر قانونی طور پر سرمایہ بھارت منتقلی سے بچنے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک انڈین چینلز کی یلغار سے بچنا بھی ممکن ہو جائے گا اور صارفین کو بھی ٹی وی چینلز اچھی پکچر اور ساؤنڈ کوالٹی میں دیکھنے کو ملیں گے.

مدثر ظفر

مدثر ظفر پیشے سے ہومیو فزیشن ہیں اور مطالعے و تحریر کا شوق رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔