عدالتی نوٹس کے باوجود اسلام آباد دھرنا ہوگا، اسد عمر
اسلام آباد: پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما لیکس کے حوالے سے وزیراعظم سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرنا اس کیس کا ابتدائی حصہ ہے، لہذا اس سے 2 نومبر کے احتجاج کا فیصلہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ ابھی عدالت نے تمام ثبوتوں کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا یہ کیس سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں ہے یا نہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسلام آباد دھرنا اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے، کیونکہ وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ میں خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کا کہا، لیکن اس پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
ان کا کہنا تھا کہ 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان سپریم کورٹ کے خلاف نہیں بلکہ ہم تو صرف ان اداروں کی بات کررہے ہیں جو کہ وفاق کے زیر کنٹرول ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ اصل میں تو اس معاملے کو اپوزیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) کے تحت پارلیمنٹ میں آنا چاہیے تھا جس کا ہم شروع دن سے مطالبہ کررہے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'پاناما لیکس کے انکشافات سامنے آنے کے بعد تحقیقاتی اداروں کو ایکشن میں آجانا چاہیے تھا تاکہ اس طرح کا سیاسی بحران پیدا ہی نہ ہوتا'۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیئے۔
مزید پڑھیں:پاناما لیکس: وزیراعظم سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری
دوسری طرف سپریم کورٹ میں کارروائی کے فوری بعد وزیراعظم نواز شریف نے اپنے رفقاء اور قانونی ٹیم سے مشاورت کے بعد بیان جاری کیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ 'میں پاناما پیپرز کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کارروائی کے آغاز کا کھلے دل سے خیر مقدم کرتا ہوں'۔
یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اگلے ماہ 2 نومبر کو تحریک انصاف پاناما لیکس اور ملک میں کرپشن کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کرچکی ہے۔
یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لاء فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔
ان دستاویزات میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔
یہاں پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف
پاناما انکشافات کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے تھے اور وزیراعظم کے بچوں کے نام پاناما لیکس میں سامنے آنے پر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔
بعدازاں پاناما لیکس کی تحقیقات کی غرض سے حکومت اور اپوزیشن کی 12 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، حکومت اور اپوزیشن میں اس حوالے سے متعدد اجلاس ہوئے مگر فریقین اس کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پر اب تک متفق نہ ہو سکے۔