قائدِ اعظم کی جائے پیدائش: اوریجنل یا چائنہ؟
کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک دوست نے ایک بچے کی امتحانی کاپی کا ایک صفحہ فیس بُک پر ہم سے شیئر کیا تھا جس نے اوریجنل کی ضد چائنہ لکھی تھی۔
میں نے اپنے دوست اور رشتے میں بھتیجے محسن سومرو سے اس بات کا ذکر کیا۔ وہ بہت ہنسے اور مجھے کہا کہ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ کو اوریجنل اور چائنہ پر کچھ نہ کچھ لکھنا چاہیے۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ محسن بھی گھر چلا گیا اور میں بھی اپنے گھر، لیکن یہ کانٹا میرے ذہن مین چھبتا رہا۔
پھر میں نے خود اندازہ لگایا کہ اوریجنل اور چائنہ کیا ہے۔ پاکستان میں آپ کوئی بھی الیکٹرانک چیز خریدیں، خواہ وہ فریج ہو یا کچھ اور، دکاندار آپ سے پہلا سوال یہ کرتا ہے کہ اوریجنل چاہیے یا چائنہ؟ اب ہم جناح صاحب کی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کے حوالے سے ایک کہانی بیان کر رہے ہیں۔ اس کہانی کے آخر میں یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ کیا اوریجنل ہے اور کیا چائنہ۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح کی تاریخِ پیدائش اور جائے پیدائش کے حوالے سے مختلف تضادات پائے جاتے ہیں، حتیٰ کہ اس حوالے سے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں۔ تاریخِ پیدائش کے بارے میں دو مختلف تاریخوں کے حوالے سے معروف دانشور جی الانا نے قائد اعظم کی سوانحِ حیات میں اِس کا ذکر کیا ہے۔
کتابی صورت میں یہ سوانحِ حیات پہلی بار انگریزی میں شائع ہوئی تھی لیکن اس کا اردو ترجمہ رئیس امروہوی نے کیا ہے۔ اردو ترجمے کی کتاب کا نام ہے ’’قائدِ اعظم جناح: ایک قوم کی سرگزشت‘‘، مُصّنف: جی۔ الانا، مُترجم رئیس امروہوی۔ فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈ لاہور۔ راولپنڈی۔ کراچی۔
پڑھیے: جناح صاحب بمقابلہ قائد اعظم
کتاب کے صفحہ نمبر 19 پر جناح صاحب کے حوالے سے رقم ہے کہ: "سندھ مدرسۃ الاسلام کے انگریزی شعبے میں داخل ہونے والے طالب علموں کے جنرل رجسٹر سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد علی جناح کو اس اسکول میں 4 جولائی 1887 کو داخل کیا گیا تھا اور وہ 114 ویں طالب علم تھے۔ اندراجات کے مطابق اُن کا نام محمد علی جناح اور جائے پیدائش کراچی تھی۔ یومِ پیدائش درج نہ تھا۔ عمر: 14 سال، فرقہ: خوجہ، سابقہ تعلیم: اسٹینڈرڈ چہارم گجراتی، فیس معاف ہے یا ادا کی جائے گی: ادا کی جائے گی۔
دوسرا اندراج جس کا نمبر شمار 178 ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ 23 ستمبر 1887 کو محمد علی جناح کو سندھ مدرسۃ الاسلام میں دوبارہ داخل کیا گیا۔ اب کی بار ان کی تاریخِ پیدائش 20 اکتوبر 1875 اور سابقہ تعلیم کے خانے میں انجمن اسلام بمبئی اسٹینڈرڈ اوّل درج کی گئی۔
9 فروری 1891 کے ذیل میں جو کوائف بیان کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: نام: محمد علی جناح بھائی۔ جائے پیدائش: کراچی۔ تاریخ پیدائش: 20 اکتوبر 1875۔ فرقہ: خوجہ۔ سابقہ تعلیم: اسٹینڈرڈ چہارم۔ فیس ادا کی گئی کہ نہیں: ادا کی گئی۔
دو مختلف اندراجات کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش 25 دسمبر 1876 کی صحت کے بارے میں شبہ ہوتا ہے، لیکن اس امر سے زیادہ مستند کیا بات ہوسکتی ہے کہ قائدِ اعظم نے ہمیشہ اپنی سالگرہ 25 دسمبر کو منائی۔ سندھ مدرسے کے رجسٹر کے اندراج کے مطابق اس اسکول میں طالب علمی کے دوران میں ان کے نام کی ہّجے دو مرتبہ تبدیل ہوئی۔
صحافی، شاعر اور محقق مظہر لغاری کے مطابق، سندھ میں عام طور پر مانا جاتا ہے کہ جناح 20 اکتوبر 1875 کو ٹھٹھہ ضلعے کے ایک قصبے جھرک میں پیدا ہوئے۔ سروجنی نائیڈو، جنہوں نے ان کی پہلی سوانح لکھی، نے اُن کی تاریخ پیدائش 25 دسمبر 1876 لکھی ہے اور اس کے لیے ان کے پاسپورٹ میں درج تاریخ پیدائش کا حوالہ دیا۔ اس زمانے میں ٹھٹھہ ضلع کراچی کا حصہ تھا۔
سابق وزیرِ ثقافت سسئی پلیجو کے مطابق 1990 میں کیے گئے تحقیقی کام سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جناح جھرک میں پیدا ہوئے۔ 1950 میں سندھی ادبی بورڈ کی چھپنے والی درسی کتابیں جو بڑا عرصہ چلیں، ڈاکٹر عمر بن عبدالعزیز داؤد پوتہ نے لکھیں۔ فاطمہ جناح اس وقت تک زندہ تھیں جب یہ کتابیں پرائمری اسکولوں میں پڑھائی جاتی رہیں، انہوں نے ان پر اعتراض کیوں نہیں کیا۔
ڈاکٹر کلیم لاشاری کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کے مطابق جناح ایک ایسے گھر میں پیدا ہوئے تھے جو اس پلاٹ کے قریب واقع تھا جہاں وزیر مینشن تعمیر ہوا، مگر وزیر مینشن میں نہیں، کیوں کہ 1883 سے قبل اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔
مظہر لغاری کے مطابق جھرک شہر کے لوگ بتاتے ہیں کہ جناح بھائی پونجا بھی وہیں پیدا ہوئے۔ کچھ بزرگوں کا کہنا ہے کہ جناح کی جائے پیدائش کا معاملہ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکمرانی میں بھی اٹھا تھا اور بھٹو صاحب نے اس معاملے کے لیے ایک فیکٹ فائینڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے ممبران جھرک آئے اور اسکول سے ماسٹر رول اور جنرل رجسٹر سمیت تمام ریکارڈ اپنے ساتھ لے گئے جو بعد میں کبھی واپس نہیں کیا گیا۔ اس نکتے پر ہم بعد میں واپس آئیں گے۔
پڑھیے: کون سے قائد اعظم؟
لیکن کچھ بزرگوں کا کہنا ہے کہ 1967 میں اس زمانے کے کمشنر حیدرآباد مسرور احسن، جو ایوب خان اور نواب آف کالا باغ کے منظورِ نظر بھی تھے، وہ اسکول کا ریکارڈ ساتھ لے گئے۔ اس زمانے کے ڈویژنل کمشنر کے اختیارات موجودہ دور کے گورنر سے بھی زیادہ تھے۔ مسرور احسن اردو بولنے والے تھے اور ان کے دور میں ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے اس تاثر کو تقویت دی کہ وہ سندھیوں، سندھی زبان، کلچر اور تاریخ کی جانب متعصبانہ رویہ اپنائے ہوئے تھے۔
ان کے دور میں 1967 میں جب سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر حسن علی عبدالرحمان نے اعتراض کیا کہ کمشنر کو یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے اجلاس میں نہیں بیٹھنا چاہیے تو کمشنر غصے میں آ گئے اور انہوں نے وائس چانسلر کو ہٹانے کے اقدامات کرنے شروع کیے جس پر سندھی قوم پرست طلبا تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کو انتظامی مشینری استعمال کر کے کچلا گیا۔
ایوب خان کے دور میں تدریس کے لیے سندھی زبان پر پابندی بھی لگائی گئی، ووٹر فہرستوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر سے سندھی زبان کو مٹا دیا گیا۔ اس کے پس منظر میں سمجھا جاتا ہے کہ مسرور احسن نے غالباً سندھیوں کو جناح کی جائے پیدائش کے اعزاز سے محروم کرنے کے لیے ریکارڈ گم کیا۔ بقول شخصے وہ ان کی جائے پیدائش 'بجنور' تو نہیں بنا سکتے تھے، لیکن انہوں نے جناح کی جائے پیدائش وزیر مینشن تک بہرحال پہنچا دی۔
اس حوالے سے مظہر لغاری اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر سندھی ادبی بورڈ کی جانب سے اگست 1960 میں شائع ہونے والی ایک درسی کتاب کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ یہ کتاب ساتویں جماعت کے بچوں کے لیے لکھی گئی تھی۔ اس کتاب میں سندھی زبان میں جو مضمون قائد اعظم کے حوالے سے لکھا گیا ہے اُس کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
ساتویں کی کتاب
دوسرا مضمون (صفحہ نمبر سات)
قائد اعظم محمد علی جناح
’’سندھ کے مایہ ناز فرزند، تقریباً پون صدی قبل جھرک کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد ایک غریب بیوپاری تھے۔ کوئی بھی یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ ایک دن اُن کا شمار دنیا کی بڑی ہستیوں میں ہوگا۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے سندھ مدرسۃ الاسلام سے میٹرک پاس کیا۔ بعد ازاں سیٹھ نور محمد لالن والوں سے تین ہزار روپے قرض لے کر ولایت بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرنے گئے۔ وہاں کی تعلیم و تہذیب کے ان کی زندگی پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے۔ ولایت سے لوٹنے کے بعد وہ بمبئی پہنچے جہاں انہوں نے وکالت کا آغاز کیا، جس میں انہوں نے بہت نام کمایا۔
وہ وہاں کے بزرگ دادا بھائی نوروجی کے زیرِ اثر سیاسی امور میں بھرپور حصہ لینے لگے۔ پہلے پہل وہ کانگریس میں شامل ہوئے، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ کانگریسی ہندو سچے نہیں، وہ مسلمانوں کی کبھی بھی بھلائی نہیں چاہیں گے، تو انہوں نے کانگریس سے اپنے راستے الگ کر لیے اور مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی اور مولانا محمد علی جیسے شیر مرد بھی اُس میں شامل ہوئے، لیکن جناح صاحب اپنے اخلاق اور مستقل مزاجی کے سبب سب سے بازی لے گئے۔‘‘