نقطہ نظر

'اماں اس بار کتنے لوگ مارے گئے ہیں؟'

کوئٹہ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی 4 خواتین کے قتل کے بعد ایک ہزارہ خاتون کا اپنے بیٹے کو خط۔

میرے پیارے بیٹے سالار،

تم میری زندگی کی تمام خوشیاں اور جینے کی وجہ ہو۔ یہ تمہارا معصوم وجود ہی ہے جس نے ہماری زندگی حسین بنائی اور ہمارا ہر دن مسرتوں سے بھر دیا۔ میں تمہارے، تمہاری چھوٹی بہن اور تمہارے والد کے بغیر اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی تصور نہیں کر سکتی۔

سالار، تم بہت ہی لائق لڑکے ہو، کسی بڑے کی طرح بلوغت اور حالات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہو اور تم اپنے ہم عمروں سے کہیں زیادہ ذہین اور ہوشیار ہو۔ تم مظاہروں میں جاتے ہو، اجلاسوں میں شرکت کرتے ہو اور میرے ساتھ دعائیہ تقاریب میں آتے ہو اور ان تمام مشکل حالات سے بخوبی واقف ہو جن میں ہم جی رہے ہیں۔

تم جانتے ہو نا تمہاری والدہ کا وسیع خاندان، یعنی کوئٹہ میں مقیم ہزارہ برادری اپنے عقیدے کی وجہ سے 15 برسوں سے بھی زائد عرصے سے مسلسل دہشتگرد حملوں کی زد میں ہے، ان کی نسلی طور پر حاصل خصوصیات کافی نمایاں ہیں جو انہیں مزید غیر محفوظ بنا دیتی ہیں۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ دہشتگرد کوئٹہ میں سینکڑوں کی تعداد میں ہزارہ برادری کے لوگوں کا قتل کر چکے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے ہم پر حملے کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

میرے بیٹے تم نے مجھ سے کبھی نہیں پوچھا ہے کہ ہم دعائیہ تقریب کیوں منا رہے ہیں؛ بلکہ اس کے بجائے یہ پوچھتے ہو کہ، ’’اماں اس بار کتنے لوگ مرے؟‘‘ اپنی نویں سالگرہ کے موقعے پر تم نے میرے کان میں سرگوشی کی تھی کہ، ’’کاش میرے وطن سے دہشتگرد بھاگ جائیں تا کہ ہم بنا کسی خوف کے زندگی گزار سکیں۔‘‘

جب دو سال قبل آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تھا تب تم نے مجھ سے جو الفاظ کہے تھے وہ آج بھی یاد ہیں کہ’’ہمارا وزیراعظم ان دہشتگردوں سے لڑتا کیوں نہیں ہے؟ جب میں وزیر اعظم بنوں گا تب ان تمام دہشتگردوں کا خاتمہ کردوں گا۔‘‘ میں نے اس موقعے پر دعا مانگی تھی کہ ایک دن تم اس ملک کو امن کا گہوارا اور تمام شہریوں کے لیے جینے لائق بناؤ گے؛ اور یوں تم مجھے دنیا کی سب سے زیادہ بافخر ماں بنا دو گے۔

تم ہمیشہ میرا تعارف انسانی حقوق کی ہزارہ کارکن کے طور پر کرواتے ہو۔ تم میرے بیٹے ہو اور میرا یہ تعارف ایک ایسے معاشرے میں تمہارے لیے باآسانی کمزوری کا پہلو بن سکتا ہے جہاں اکثریت تکثیریت کو برداشت نہیں کرتی اور جن کی نظروں میں ان لوگوں کے لیے عزت نہیں جو ان سے مختلف ہیں۔

تمہیں پتہ ہوگا کہ کچھ دن پہلے کوئٹہ میں دہشتگردوں نے ایک ٹارگٹ حملے میں چار ہزارہ خواتین کو قتل کردیا تھا۔ وہ خواتین مجھ جیسی ہی تھیں جو روزمرہ کے کام نمٹا کر اپنے گھر کو لوٹ رہی تھیں۔ وہ تمہارے جیسے اپنے بچوں کے پاس لوٹ رہی تھیں جو بے صبری سے اپنی ماؤں کا انتظار کر رہے تھے۔

وہ بچے دوبارہ پھر کبھی بھی اپنی ماؤں کو دیکھ نہیں پائیں گے۔ ان کا خیال کون رکھے گا؟ انہیں کھانا کون کھلائے گا؟ انہیں جب ممتا کی سب سے زیادہ ضرورت ہو گی تب انہیں ماں کا پیار کون دے گا؟ دہشتگردوں نے نہ صرف چار عورتوں کو مارا ہے بلکہ چار معصوم خاندانوں کا قتل کیا ہے، اور وہ بھی صرف اس بنا پر کہ ان کا عقیدہ الگ ہے۔

مجھے ڈر ہے کہ ایک دن میں بھی ایسے ہی عناصر کے ہاتھوں ماری جاؤں گی۔ میری صرف ایک ہی دعا ہے کہ جب ایسا ہو تب تم اور تمہاری بہن میرے ساتھ نہ ہوں۔ گزشتہ 3 سے 5 برسوں سے میں جب کبھی بھی تمہارے ساتھ باہر جاتی ہوں تب میرے ذہن پر صرف عدم تحفظ کا احساس حاوی رہتا ہے اور خود پر حملہ ہونے کے ڈر سے میری دل کی دھڑکن مسلسل بڑھتی جاتی ہے۔

میرے بیٹے مجھے مرنے کا ڈر نہیں ہے مگر میں نہیں چاہتی ہے کہ اُس وقت تم میرے ساتھ رہو، کیونکہ اگر تم حملے میں زندہ بھی بچ گئے تو بھی تم اپنی پوری زندگی میں اس حادثے سے پہنچے والے جذباتی اور نفسیاتی صدمے سے باہر نکل نہیں پاؤ گے۔

جب سے آرمی پبلک اسکول کا ہیبت ناک واقعہ ہوا ہے تب سے تم جب بھی اسکول جاتے ہو تو ہمیشہ ذہنی دباؤ کا شکار رہتی ہوں کیونکہ میں اس حملے سے پہنچنے پر نفسیاتی اثرات پر غالب نہیں آ پائی ہوں۔

جب تم دنوں اسکول میں ہوتے ہو میرا ہر وہ دن گزارنا دشوار ہوتا ہے۔ اس ملک میں والدین ہونا اپنے بچوں کی حفاظت اور تحفظ کو لے کر مسلسل پریشانی میں مبتلا رہنے کا نام ہے۔

میرے بیٹے یہ دنیا، خاص طور پر جہاں ہم جی رہے ہیں، نفرت، انتشار، تفریقات اور عدم برداشت سے بھری ہوئی ہے۔ جہاں لوگ مذہب، فرقے، نسل اور دیگر بنیادوں پر قتل و غارت کرتے ہیں؛ لگتا ہے کہ ان کے نزدیک ساتھ مل کر پر امن زندگی گزارنے کی کوئی ایک بھی وجہ نہیں۔

تمہیں کبھی بھی اپنی زندگی میں نفرت اور اشتعال کو گھر کرنے نہیں دینا۔ کبھی کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھنا جس کے باعث لوگ تم سے نفرت کرنا شروع کردیں، کبھی بھی ایسے عوامل اور الفاظ کو درست نہ ٹھہرانا جو نفرت پھیلانے کا باعث بنتے ہوں۔ دوسروں سے نفرت کرنا تو بہت آسان ہے مگر ان سے پیار کرنا انتہائی مشکل کیونکہ اس کے لیے تمہیں ان میں موجود کئی خامیوں پر آنکھیں موندنی ہوتی ہیں۔

میں چاہتی ہوں کہ تم آگے اپنی زندگی کے لیے مشکل راستے کا انتخاب کرو اور ایسے انسان بنو جو ہمیشہ ہر کسی سے محبت کا رشتہ قائم رکھے کیونکہ محبت ہی تو ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ میری تمام نیک تمنائیں تمہارے ساتھ ہیں۔

تمہاری فکرمند ماں،

فاطمہ عاطف

انگلش میں پڑھیں

فاطمہ عاطف

فاطمہ عاطف انسانی حقوق کی ممتاز کارکن ہیں اور کوئٹہ کی ہزارہ برادری کی نمایاں آواز ہیں۔ وہ اس برادری کی ثقافت اور مسائل کو بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر اجاگر کرتی رہتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔