کھیل

مبارک باد... لیکن کس بات پر؟

سو سے زائد اوورز کھیلتے ہوئے میچ بچانے کی کوشش پر ویسٹ انڈین ٹیم کو مبارکباد دی جاسکتی ہے مگر پاکستان کو نہیں۔

پاکستان کے 400 ویں ٹیسٹ اور ایشیا میں کھیلے گئے پہلے ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میچ میں کامیابی پر پاکستانی قوم کو مبارک ہو۔ اظہر علی کی ٹرپل سنچری اور یاسر شاہ کی تیز ترین سو وکٹوں پر بھی کرکٹ کے دیوانوں کو مبارک ہو۔ مصباح الحق کی بحثیت کپتان 23ویں فتح پر بھی گرین شرٹس کے چاہنے والوں کو مبارک ہو۔

مگر چند دن قبل عالمی رینکنگز میں سرفہرست پوزیشن حاصل کرنے والی پاکستانی ٹیم کی اپنے ’’گھر‘‘میں ویسٹ انڈیز جیسی ٹیم کے خلاف 56 رنز کی کامیابی پر مبارکباد نہیں دی جاسکتی۔ پہلی اننگز میں رنز کا پہاڑ کھڑا کرنے کے باوجود دوسری اننگز میں جس طرح پاکستانی بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی اس پر مبارکباد نہیں دی جاسکتی۔ جیسے پاکستانی بیٹسمینوں نے دوسری باری میں غیر ذمہ دارانہ اسٹروکس کھیلے ان پر مبارکباد نہیں دی جاسکتی۔ ویسٹ انڈیز کی قدرے کمزور اور ناتجربہ کار ٹیم نے 38برس کے عرصے میں پہلی مرتبہ چوتھی اننگز میں سو سے زائد اوورز کھیلتے ہوئے میچ بچانے کی کوشش کی اس پر ویسٹ انڈین ٹیم کو مبارکباد دی جاسکتی ہے مگر پاکستان کو نہیں۔ اس تاریخی ٹیسٹ میں پاکستان نے کامیابی ضرور حاصل کی ہے مگر اس میچ میں پاکستانی ٹیم اپنے معیار سے کوسوں دور دکھائی دی جو یقیناً تشویش کی بات ہے۔

اگر جیت صرف جیت ہے اور جیت ہر خامی کو چھپا دیتی ہے تو پھر مجھے یہ سطریں لکھنے کی ضرورت نہ تھی لیکن جیت کا جشن مناتے ہوئے خامیوں و کوتاہیوں سے صرفِ نظر کرنا بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ پاکستان نے بھلے اس میچ میں کامیابی حاصل کرلی ہے مگر بہت سے پہلو ایسے ہیں جہاں ٹیم نے اپنی کمزوری ظاہر کی ۔ اگلے میچ سے پہلے ان کمزوریوں پر قابو پانا بھی لازمی ہے کیونکہ پہلے میچ میں شکست کے باوجود ویسٹ انڈیز نے نہایت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ ٹیم اگلے میچ میں زیادہ بہتر تیاری کے ساتھ میدان میں اترے گی۔

یہ بھی پڑھیں: شاہد آفریدی کی سوانح حیات اگلے برس

دبئی میں کھیلے گئے ’’گلابی ٹیسٹ‘‘ میں پاکستانی ٹیم کی سب سے بڑی خامی یہ رہی کہ پہلے دو دن کے کھیل کے بعد پاکستانی ٹیم کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ وہ ٹیسٹ میچ جیت چکے ہیں اور زعم میں یہ بات بھلا دی گئی کہ اس کھیل میں آخری گیند تک کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔579رنز کا پہاڑ کھڑا کرنے کے بعد دوسرے دن کا کھیل ختم ہونے پر ویسٹ انڈیز کی ایک وکٹ حاصل کرکے پاکستانی ٹیم ٹاپ پر تھی اور عام شائقین کو بھی یہ لگ رہا تھا کہ شاید اس میچ کا فیصلہ چوتھے دن ہی ہوجائے کیونکہ پاکستان کی بالنگ لائن ویسٹ انڈیز کو اُڑا کر رکھ دے گی مگر تیسرے دن مہمان ٹیم نے پانچ وکٹیں گنواتے ہوئے ڈھائی سو کے لگ بھگ رنز بنا کر کم بیک کیا اور پہلی اننگز میں124اوورز بیٹنگ کرتے ہوئے 357رنز بنا ڈالے۔ اسی طرح دوسری اننگز میں بھی ویسٹ انڈیز کے بیٹسمینوں نے 109اوورز تک پاکستانی بالرز کا بھرپورمقابلہ کیا۔

مجموعی طور پر پاکستانی گیند بازوں کو 20وکٹوں کے حصول کے لیے دبئی ٹیسٹ میں 233اوورز بالنگ کروانا پڑی جس کا مطلب ہے کہ ایک وکٹ کے حصول کے لیے پاکستانی بالرز نے اوسطاً 70 گیندوں تک انتظار کیا۔ ویسٹ انڈیز نے اس میچ میں مجموعی طور پر 1397گیندیں کھیلیں جو پاکستان کے خلاف شکست خوردہ ٹیسٹ میچز میں کھیلی گئی گیندوں کی چوتھی بڑی تعداد ہے جبکہ پاکستان کے خلاف ہدف کے تعاقب میں ناکام رہتے ہوئے یہ کھیلی گئی گیندوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ویسٹ انڈیز کے بیٹسمینوں نے یہ پرفارمنس اس بالنگ لائن اَپ کے خلاف دکھائی ہے جس میں ورلڈ کلاس یاسر شاہ کے ساتھ باصلاحیت محمد عامر، ریورس سوئنگ کا ماہر وہاب ریاض اور سہیل خان بھی شامل تھے۔ اگر پانچ فرنٹ لائن بالرز کھلانے کے باوجود ویسٹ انڈیز کو دو مرتبہ آؤٹ کرنے کے لیے پاکستانی بالرز کو اتنی جدوجہد کرنا پڑی ہے تو پھر ایسی پرفارمنس پر تالیاں بجانا تو مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یاسر بمقابلہ ایشون، کون بہتر؟

پھر دوسری اننگز میں پاکستانی بیٹسمینوں نے جس بے پروائی سے اپنی وکٹیں گنوائیں، اس کی مثال ماضی میں ملتی تو ہے لیکن موجودہ بیٹنگ لائن اَپ سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ کپتان سمیت تمام بیٹسمین جیت کا یقین کرکے میدان میں اترے اور ویسٹ انڈین لیگ اسپنر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے بعد کمرہ آرام میں منتقل ہوگئے۔ لیکن کیا پہلی اننگز میں چھ سو کے لگ بھگ رنز بنانے والی ٹیم کا دوسری اننگز میں محض 123 پر ڈھیر ہوجانا کیا پریشانی کی بات نہیں ہے؟ اور اگر یہ وکٹ اسپنرز کے لیے اتنی سازگار تھی کہ دیوندر بشو آٹھ وکٹیں لے اُڑے تو پھر چوتھی اننگز اور پانچویں دن یاسر شاہ کی جھولی میں وکٹیں کیوں نہ آن گریں جو 41 اوورز میں صرف 2 وکٹیں ہی حاصل کر پائے؟

تاریخی ٹیسٹ میں جیت کا جشن منانا بالکل جائز ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہ لمحے دوبارہ نہیں آئیں گے مگر اس جشن میں اپنی خامیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ میچز کے مقابلے میں پاکستانی ٹیم اس میچ میں اچھا نہیں کھیلی اور ذرا سوچیں اگر یاسر شاہ اپنی بالنگ پر سنچری میکر ڈیرن براوو کا غیر معمولی کیچ نہ پکڑتے تو پھر کیا ہوتا؟ بلکہ کیا کچھ ہوگیا ہوتا!۔

یہ مضمون ابتدائی طور پر کرک نامہ ڈاٹ کام پر شائع ہوا، اور با اجازت یہاں دوبارہ شائع کیا گیا ہے.