پاکستان

مودی برکس رہنماؤں کو گمراہ کر رہے ہیں، سرتاج عزیز

مشیر خارجہ کا پاکستان کو 'دہشت گردی کا گڑھ' قرار دینے سے متعلق ہندوستانی وزیراعظم کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار

اسلام آباد: ہندوستان میں ہونے والے برکس (برازیل روس انڈیا چین جنوبی افریقا) اجلاس کے دوران پاکستان کو 'دہشت گردی کا گڑھ' قرار دینے سے متعلق ہندوستانی وزیراعظم کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ نریندر مودی برکس اور بنگال انیشی ایٹو فار ملٹی سیکٹورل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن (BIMSTEC) کے ساتھیوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔

ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق سرتاج عزیز نے عالمی برادری خصوصاً برکس (برازیل روس انڈیا چین جنوبی افریقا) رہنماؤں پر زور دیا کہ ہندوستان کو کشمیریوں کا خون بہانے سے فوری طور پر روکا جائے۔

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ کشمیر ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ مسئلہ ہے اور یہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ایجنڈے پر بھی ہے لیکن ہندوستانی قیادت مسلسل مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم اور بربریت چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حق خودارادیت کا بنیادی حق مانگنے پر مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں:پاک بھارت کشیدگی برِکس اجلاس پر بھی غالب

مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی جانب سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے جوڑنے کی ہندوستانی کوششوں کو اقوام متحدہ اور او آئی سی کی جانب سے مسترد کیا جاچکا ہے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے اور بغیر کسی امتیاز کے اس لعنت کے خلاف جنگ میں برکس اور BIMSTEC کے ساتھ ہے، جس میں ہندوستان کی جانب سے پاکستان کی سرزمین پر اسپانسر کی جانے والی دہشت گردی بھی شامل ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ دنوں گوا میں ہونے والے برِکس اجلاس کی میزبانی کے دوران ہندوستان نے پاکستان کو تنہا کرنےاور بین الاقوامی برادری کو متحد کرنے کی مہم کا آغاز کیا۔

اجلاس کے اختتامی خطاب میں نریندر مودی نے دہشت گردوں کے حامیوں کو خطرہ قرار دیا اور پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ خطے میں اقتصادی خوشحالی کے لیے سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی ہے اور المیہ یہ ہے کہ اس کا مرکز پڑوس میں واقع ایک ملک ہے۔

پاک-ہندوستان کشیدگی— کیا کیا ہوا؟

یاد رہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہانی وانی کی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے جدوجہد آزادی کی نئی لہر اٹھی تھی جو اب تک جاری ہے۔

کشمیر کے مختلف علاقوں میں گذشتہ 3 ماہ سے زائد عرصے سے کرفیو نافذ ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے، اسکولز، دکانیں، دفاتر اور پٹرول پمپس وغیرہ بند ہیں جبکہ موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہونے کی اطلاعات ہیں ساتھ ہی کئی اخبارات پر بھی پابندی عائد کی جاچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کشمیر کی التجا: ہماری آنکھیں ہم سے مت چھینیں

ہندوستانی فوج نے وادئ کشمیر میں پیلٹ گنوں سے 700 سے زائد کشمیریوں کو کو بینائی سے محروم کردیا ہے۔

کشمیر سے اظہار یکجہتی اور بھارتی مظالم کے خلاف پاکستان نے عالمی سطح پر آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا اور 21 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں وزیر اعظم نواز شریف نے بھرپور طریقے سے کشمیر میں بھارتی مظالم کا تذکرہ کیا تھا۔

تاہم اس سے قبل 18 ستمبر کو کشمیر کے اُڑی سیکٹر میں ہندوستانی فوجی مرکز پر حملے میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کا الزام نئی دہلی کی جانب سے پاکستان پر عائد کیا گیا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کردیا۔

بعدازاں 29 ستمبر کو ہندوستان کے لائن آف کنٹرول کے اطراف سرجیکل اسٹرائیکس کے دعووں نے پاک-بھارت کشیدگی میں جلتی پر تیل کا کام کیا، جسے پاک فوج نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان نے اُس رات لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی اور بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں 2 پاکستانی فوجی جاں بحق ہوئے، جبکہ پاکستانی فورسز کی جانب سے بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا گیا۔