خیرپور کی مشہور کھجوریں آپ تک کیسے پہنچتی ہیں؟
جغرافیائی اعتبار سے سندھ گونا گوں خصوصیات سے سرشار ہے۔ اگر کہیں صحرا ہے، وہیں اس کے سینے پر بہتا دریا بھی ہے۔ کہیں سنگ لاخ پہاڑوں کی بلندیاں ہیں تو کہیں شور مچاتا سمندر اس کے کناروں سے کھیلتا نظر آتا ہے۔ کہیں سرسبز لہلہاتے کھیت ہیں تو کہیں باغات کے شوخ رنگوں کی خوبصورتی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔
ان رنگوں میں سے ایک رنگ سندھ کے شہر خیرپور میں دکھائی دیتا ہے، اس شہر میں اور آس پاس کھجور کے کئی باغات ہیں جو دہائیوں سے نہ صرف لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں بلکہ وہ اب اس شہر کی پہچان بھی بن چکے ہیں۔
اونچے اونچے کھجور کے درختوں کو دیکھ کر مجھے جھمپیر کے تباہ حال کھجور کے درخت یاد آئے، جو کسی زمانے میں 'تاڑی' کی وجہ سے خاصی مقبولیت رکھتے تھے۔
تاڑی شراب کی ایک قسم ہے، جو تازہ اور جوان کھجور کے درخت میں چھید کرنے کے بعد اس میں ایک چھوٹا پائپ پیوست کر کے نکالی جاتی تھی۔ درخت کے ساتھ مٹی کے ایک برتن کو باندھ کر دوسرے دن تک چھوڑ دیا جاتا تھا، جس میں سے قطرہ قطرہ رس ٹپک کر جمع ہوتا تھا۔ سورج ڈھلتے ہی رس کا رنگ تبدیل ہو جاتا تھا۔
سورج کی کرنوں کے نہ پڑنے تک اسے 'نیرو' کہا جاتا تھا مگر جیسے ہی اس پر سورج کی کرنیں پڑنے لگتی تھیں، تو اسے 'تاڑی' کہا جاتا تھا۔ 1970 میں ورجینیا کمپنی جھمپیر سے تاڑی لے کر کراچی کے باروں میں فراہم کرتی تھی، جہاں اسے اور بھی ذائقے دار بنایا جاتا تھا، پھر یہ سلسلہ بند ہو گیا۔
مجھے خیرپور کی کھجوروں کو دیکھ کر اس بات کی خوشی ہوئی کہ یہاں تاڑی بنانے کی خاطر کسی کھجور کے درخت کا قتل نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے پھل کو پورے ملک اور ملک سے باہر برآمد کیا جاتا ہے۔
میرے اردگرد کھجوروں کے ہی باغ تھے۔ ان اونچے کھجور کے درختوں میں صرف کھجور کا پھل ہی نہیں بلکہ مجھے لگا کہ خاموشی بھی وہیں لپٹی ہوئی تھی۔ میں ان قد آدم پیڑوں کے بیچ کھڑا تھا۔