پاکستانی بچوں کے لیے بوڑھے ٹی وی پروگرام
"بل بتوڑی، ناساں چوڑی، ادھی میٹھی، ادھی کوڑی، آئی ایم سوری، آئی ایم سوری"
یہ الفاظ سن کر ہر وہ پاکستانی جو اپنی زندگی کی دو دہائیاں گزار چکا ہے، مسکرائے بغیر نہ رہ پائے گا اور اپنے ذہن کی درازوں میں محفوظ 'عینک والا جن' کی اقساط یاد کرنے بیٹھ جائے گا اور اپنے بچپن کے دنوں کی ننھی حیرتوں پر حیران ہوگا۔
دو دہائیاں گزر جانے کے بعد نسطور، زکوٹا، ہامون جادوگر، بل بتوڑی، چارلی ماموں جیسے کردار آج تک لوگوں کو ذہن نشین ہیں۔ اے حمید کے قلم سے لکھا گیا اور حفیظ طاہر کی ہدایات پر مبنی یہ ڈرامہ پاکستانی ٹی وی کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
کہانی، کردار، اسکرپٹ اور اداکاری اتنی جاندار ہے کہ کوئی بھی اس ڈرامے کے نشے میں گرفتار ہوسکتا ہے۔ کمپیوٹر گرافکس کی ٹیکنالوجی نہ ہونے کے باوجود ہدایت کار نے کمال خوبی اور محنت سے وہ سارے مناظر شامل کیے جو کسی بھی سائنس فکشن ڈرامے کا خاصہ ہوتے ہیں۔
آج بھی اگر بچوں کو ٹی وی پر عینک والا جن دکھایا جائے وہ بھی اس میں پیش کیے گئے طلسم سے اتنا ہی محظوظ ہوں گے جتنا ہم بیس سال پہلے ہوئے تھے۔
اس کی وجہ کیا ہے؟
شیکسپیئر کہتے ہیں کہ ’’اگر آپ اپنے بچوں کو ذہین بنانا چاہتے ہیں تو انہیں پریوں کی کہانیاں سنائیں اور اگر انتہائی ذہین دیکھنا چاہتے ہیں تو اور بھی زیادہ پریوں کی کہانیاں سنائیں۔‘‘
اس کی وجہ بچوں کی نفسیات ہے۔ بچوں میں طلسماتی اور تصوراتی دنیا کا تجربہ کرنے کی چاہ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے جاتے ہیں تو آس پاس کی ہر متحرک و غیر متحرک چیزوں کے بارے میں سوالات پوچھتے رہتے ہیں۔ ان کی ذہنی افزائش بھی اسی طرح ہوتی ہے۔
بچوں کا ذہن کسی بھی خیالی دنیا یا کہانی کو تصور کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے، لہٰذا اگر کسی بچے کو ایسی کسی پریوں کی داستان سنائی جائے تو وہ اس خیالی دنیا کو اپنے ذہن میں بڑے ہی بہتر انداز میں تصور کر لے گا اور اس میں خود کو بھی شامل محسوس کرے گا۔
یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں بچپن میں اتنے معیاری پاکستانی ڈرامے اور ٹی وی پروگرام دیکھنے کو ملے جو تخلیقی لحاظ سے کسی بھی طرح کم نہ تھے۔
پڑھیے: معذور نہیں، منفرد بچے
پی ٹی وی کی جانب سے 'عینک والا جن' کے علاوہ ماضی میں بچوں کے لیے بیشتر ایسے ڈرامے بنے جو ہر گھر میں شوق سے دیکھے جاتے تھے جن میں الف لیلیٰ، زنبیل، بھوت بنگلہ، کوشش اور ہم تین قابل ذکر ہیں۔
پورے گھرانے کا ایک ساتھ بیٹھ کر بلا جھجک ڈرامے دیکھنا، بچوں کا قابل دید جوش قابل جیسا کہ آج کل 'شرلاک' اور 'گیم آف تھرونز' کے لیے پایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اسکولوں اور کالجوں میں ان ڈراموں کی پیروڈی تک کی جاتی تھی۔
یہ اداکار بچوں کے لیے سپر ہیروز کا درجہ رکھتے تھے، لیکن ان ڈراموں کے بعد پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں یہ خلا آج تک پُر نہ ہوسکا۔ یہ ایک ایسی انڈسٹری ہے جس میں ہمیں اپنے پڑوسی ملک بھارت پر ہمیشہ سبقت رہی۔ جہاں پاکستان میں بھارتی فلموں کا طوطی بولتا ہے وہیں انڈیا میں پاکستانی ڈراموں کے گن گائے جاتے ہیں۔
لیکن کیا بچوں کے لیے مطلوب تفریحی ڈراموں یا پروگراموں کا معیار ماضی جیسا شاندار ہے؟ دو دہائیاں گزرنے کے بعد آج بھی ہم 'عینک والا جن' کے معیار کا بچوں کے لیے کوئی دوسرا ڈرامہ بنانے میں ناکام رہے، جبکہ سرحد کے اس پار بچوں کی ان دلچسپیوں کو سنجیدگی لیا گیا اور پھر اپنی کوششوں کو یہاں ایکسپورٹ بھی کردیا گیا اور اس میں کامیابی بھی سمیٹی گئی۔
اگر ہم اپنے ماضی کو دیکھیں تو صرف ایک ہی چینل تھا اور اس پر بھی حکومت سے لے کر گھر کے ہر ایک فرد کی نظریں ہوتی تھیں اس لیے بچوں کے لیے صحتمند تفریحی مواد نشر کیا جاتا تھا۔ پی ٹی وی پر ہر عمر والے کے لیے معلومات اور تفریح کے لیے الگ الگ مواد نشر ہوتا، جہاں بڑوں کے لیے خبرنامے اور ڈرامے، وہاں نوجوانوں کے لیے کھیل اور موسیقی اور بچوں کے لیے ہلکی پھلکی سنسنی سے بھرپور ڈرامے نشر ہوتے تھے۔
اگر مغرب کا رخ کیا جائے تو ہمیں یہ بات جاننے کو ملے گی کہ وہاں بچوں کے لیے علیحدہ ٹی وی چینلز ہیں جہاں ان کی عمر کے لحاظ سے تفریحی، معلوماتی اور تعلیمی مواد نشر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان پروگرامز اور ڈراموں کے معیار اور ان سے بچوں پر اثرات کو بخوبی جانچا جاتا ہے اور مناسب آراء ان ٹی وی چینلز کو بھی دی جاتی ہے۔
اکثر مغربی ممالک میں تدریسی و غیر تدریسی اداروں کی جانب سے آڈیئنس اسٹڈی کی جاتی ہے جہاں میڈیا اور اس کی متعلقہ آڈیئنس کے حوالے سے تحقیق کی جاتی ہے۔ بچے بھی ایک پوری آڈیئنس تصور کیے جاتے ہیں لہٰذا ان کی ترجیحات اور علمی و ذہنی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان سے متعلقہ نشریاتی مواد پر تحقیق ہوتی ہے۔
پڑھیے: میڈیا چینلز کی بھیڑ چال میں آج کی اہم ضرورت
ملکی سطح کی بات کی جائے تو بچوں کے لیے پاکستان میں کتنے ڈرامے اور کارٹون بنتے ہیں یا کتنے پاکستانی مقامی ٹی وی چینلز ہیں جو صرف بچوں کے لیے وقف ہیں؟ حتیٰ کہ انٹرنیٹ پر بھی اگر بچوں کے اردو کارٹون شوز یا موبائل ایپلی کیشنز تلاش کی جائیں تو زیادہ تر بھارت ہی بھارت نظر آتا ہے۔
ہر دوسرے گھر میں ہندی میں ڈبنگ کے ساتھ کارٹون چل رہے ہوتے ہیں جسے دل کو تسلی دینے کے لیے اردو کارٹون کہا جاتا ہے۔ جس طرح ہمیں اپنے بچپن کے ڈرامے اور ٹی وی پروگرام اپنے ملک کی اقدار اور محبت کی یاد دلاتے ہیں، تو کیا یہ کارٹون دیکھنے والے بچوں کا بچپن بھی ان کو اپنے معاشرے سے جوڑے گا؟
یقیناً نہیں۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ہم ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جو مقامی اقدار اور زبان کو لے کر اندر سے کھوکھلی ہوگی۔
آج کل کے کتنے بچوں کو اپنے کارٹونوں میں لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور یا کوئٹہ نظر آتا ہے؟ کتنے بچوں کے سپر ہیروز ایسے ہیں جن کا نام عمران، ماجد یا مینا ہے؟ کتنے ایسے ٹی وی شوز یا ویڈیو گیمز ہیں جو بچوں کو پاکستان سے جوڑتی ہیں؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب ابھی نہ ڈھونڈے گئے تو کافی دیر ہوجائے گی۔
افسوس اس بات کا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں دنیا تھری ڈی فلموں اور ورچوئل رئیلٹی کے مزے لینے میں مصروف ہے وہاں ہم ابھی تک ٹی وی پر منہ میں آم ٹھونسنے یا موبائل فون جیتنے کے لیے کاکروچوں کے ساتھ نہانے کے کرتب دیکھنے میں ہی خوشی محسوس کرتے ہیں۔
بڑے میڈیا گروپس کو اس انڈسٹری میں دلچسپی دکھاتے ہوئے آگے آنا چاہیے اور اس خلا کو پر کرنا چاہیے، جو کہ بچوں کے لیے خالص پاکستانی اور اردو ٹی وی شوز اور کارٹون نہ ہونے کی صورت میں ہم خود پیدا کررہے ہیں۔ موبائل اور سوشل میڈیا کے اس دور میں کسی بھی ایسی منفرد چیز کو کامیاب کرنا اب زیادہ مشکل بھی نہیں رہا۔
پاکستان میں تھری ڈی انیمیشن کی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت پاکستان کی پہلی اینیمیٹڈ ٹی وی سریز برقعہ ایونجرز ہے۔ اس اینیمیٹڈ سریز میں شامل کرداروں کو ٹائمز میگزین نے سال 2013 کے سب سے زیادہ متاثرکن تصوراتی کرداروں میں سے ایک قرار دیا تھا۔
اس سیریز میں کم از کم بچے اپنے معاشرے کا عکس تو دیکھ سکتے ہیں اور اچھائی و برائی کی درمیان تمیز کا درس تو حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح بھلا ہو شرمین عبید چنائی کا جنہوں نے ایک اور کامیاب اینیمیٹڈ فلم، تین بہادر پیش کی۔
پڑھیے: '3 بہادر فلم نہیں تحریک ہے'
انٹرنیٹ کی سطح پر بچوں کے لیے اردو کہانیوں سے متعلق ایک ویب سائٹ ٹافی ٹی وی نظر سے گزری جو کہ ایک اچھی کاوش ہے، جس میں ویڈیو داستان گوئی کے علاوہ بچوں کو اردو نظموں سے بھی آشنا کیا جا رہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں موجود درجنوں چینلز اپنے اوقاتِ نشریات میں بچوں کا حصہ لازمی شامل کریں، اور پاکستانی اینیمیٹرز کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ بچوں کے لیے معیاری معلوماتی اور تفریحی مواد نشر کیا جا سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے ڈرامے اور ذہنی آزمائش کے پروگرامز ترتیب دیے جائیں تا کہ بچوں کو تفریحتاً تعلیم دی جا سکے کیوں کہ ٹی وی کو صرف بالغ اور بزرگ ہی نہیں دیکھتے بلکہ چھوٹے بچے بھی دیکھتے ہیں۔
احسن سعید پیشے کے اعتبار سے ڈیجیٹل میڈیا مارکیٹنگ سے تعلق رکھتے ہیں، جب کام نہیں کرتے تو لکھتے اور سفر کرتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: aey@.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔