نقطہ نظر

ادب کا نوبیل انعام باب ڈلن کے لیے ہی کیوں؟

موسیقی کی دنیا میں باب ڈلن کی گرد کو بھی کوئی نہیں پہنچ سکتا، مگر کیا انہیں ادیب تسلیم کر لینا چاہیے؟

اس ساری بحث سے باب ڈلن کا کوئی تعلق نہیں ہے، نہ ہی ان کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ وہ اپنا کام ایمانداری سے کر رہے ہیں۔ انہوں نے دنیا میں دکھی لوگوں کے دلوں کی آواز بننے کی کامیاب کوشش کی۔ گیت نگاری بھی اس کا ایک پہلو ہے، مگر اصل خدمت موسیقی اور گلوکاری سے کی۔

اگر وہ آج اتنے بڑے گلوکار اور موسیقار نہ ہوتے، تو سوئیڈش اکیڈمی کو یاد بھی نہ آتے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ موسیقی کے شعبے میں ایک کامیاب فنکار ہیں جن کے اثرات دیگر شعبوں پر بھی پڑے ہیں۔

سوئیڈش اکیڈمی کاموقف

باب ڈلن کو ادب کا نوبیل انعام دیے جانے کے حوالے سے سوئیڈش اکیڈمی اپنا مؤقف بیان کرچکی ہے۔ سوئیڈش اکیڈمی کی طرف سے اس کا عذر یہ تراشا گیا کہ انہیں یہ ایوارڈ اس لیے عطا کیا گیا، کیوں کہ ”انہوں نے امریکی گیت نگاری کی شاندار روایت کے ذریعے سے، شاعرانہ تاثرات کا ایک منفرد راستہ تخلیق کیا۔“ اس وجہ سے وہ اس برس نوبیل ادبی انعام کے حقدار ٹھہرائے گئے۔

ایک عام قاری اور غیر جانبدار تخلیق کار کی نظر میں 2016 کا نوبیل ادبی پرائز ادب تخلیق کرنے والوں کے ساتھ شدید ناانصافی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس فیصلے پر تنقید کے قوی امکانات ہیں۔

دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہوئی ادبی دنیا

باب ڈلن کو ایوارڈ ملنے کے بعد ادبی دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں، جن کی نظر میں یہ درست فیصلہ ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جن کے خیال میں ادب کو ادب ہی رہنے دیا جائے، تجربہ گاہ نہ بنایا جائے۔ جس طرح دیگر شعبوں میں انہی شعبوں سے جڑے ماہرین کو ایوارڈز دیے جاتے ہیں، ادب کے شعبے میں بھی ان حدود و قیود کا خیال رکھا جائے اور ان پر سختی سے پابندی کی جائے۔

مغرب میں باب ڈلن کو ادب کا نوبیل انعام ملنے کے فوراً بعد جو ردعمل آیا،اس میں سرفہرست امریکا کے معروف اخبار نیویارک ٹائمز اور برطانیہ کے مقبول روزنامے دی گارجین کی رپورٹیں شامل ہیں، جن میں مختلف شعبہ جات، بالخصوص ادب سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں ”سوئیڈش اکیڈمی“ کے اس حیران کن فیصلے پر روشنی بھی ڈالی ہے، جس کے مطابق ”سوئیڈش اکیڈمی نے اپنی روایات کے برعکس ایک غیر متوقع فیصلہ کیا، جس کے بعد باب ڈلن کا شمار ایسی نامور ہستیوں کے ساتھ ہونے لگا ہے، جنہیں دنیا ٹی ایس ایلیٹ، گیبرئیل گارشیا مارکیز، سیموئل بیکٹ اور ٹومی مورسن کے نام سے جانتی ہے۔“ سلمان رشدی سمیت کئی ایک ادیبوں نے اس فیصلے کو سراہا بھی ہے۔ درج ذیل لنک کے ذریعے اس تفصیلی رپورٹ کو پڑھا جاسکتا ہے۔

معروف برطانوی اخبار دی گارجین نے باب ڈلن کے اس غیر متوقع انتخاب پر ادب کے شعبے سے تعلق رکھنے والی عالمی شہرت یافتہ ادبی شخصیات سے رائے لی، تو مختلف جوابات پڑھنے کو ملے۔ کہیں ادب سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اس فیصلے کی تعریف کی، تو کہیں اس پر تنقید کی گئی اور اسے حدود سے تجاوز کرنا قرار دیا گیا۔ بشمول اس بات کے کہ ”یہ فیصلہ سب کے لیے خوشگوار نہیں ہے۔“ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادبی منظرنامے پر عالمی برادری کیا سوچ رہی ہے اور آنے والے دنوں میں اس پر مزید کس رخ پر گفتگو کی جائے گی۔

اردو زبان اور نوبیل ادبیات

نوبیل انعامات حاصل کرنے والوں کے خطبات کو اردو زبان میں ترجمہ کرنے کے حوالے سے باقر نقوی ایک اہم نام ہیں جنہوں نے باقاعدہ سوئیڈش اکیڈمی کی تحریری اجازت سے ادبیات، امن اور حیاتیات کے شعبوں سے 300 شخصیات کے تعارف اور ان کے خطبات کا اردو زبان میں ترجمہ کیا، جبکہ کئی نوبیل ادبی انعام حاصل کرنے والے ناول نگاروں کے ناول بھی اردو زبان کے قالب میں ڈھالے۔

باقر نقوی کے خیال میں "گزشتہ کچھ برسوں سے سوئیڈش اکیڈمی غیر متوقع فیصلے کرنے لگی ہے، جس طرح ابھی 2016 کا ادبی ایوارڈ یا 2009 میں امریکی صدر بارک اوباما کو دیا جانے والا نوبیل امن انعام۔" وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ "سوئیڈش اکیڈمی اچانک کسی شخص کے بارے میں انعام دینے کا فیصلہ نہیں کرتی، بلکہ وہ کئی برسوں تک اس شخص کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں، جس کو انہوں نے اعزاز دینا ہوتا ہے۔ اس سارے عمل سے متعلقہ شخصیت اور عوام بے خبر ہوتے ہیں۔ نہایت غیر جانبداری سے فیصلہ کیا جاتا ہے، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ سوئیڈش اکیڈمی کی ترجیحات تبدیل ہونے لگی ہیں۔"

انور مقصود سے ایک مکالمہ

مشہور ڈرامہ نگار انور مقصود سے ایک نشست کے دوران میری گفتگو رہی۔ انور مقصود نے اپنے کریئر میں لاتعداد ڈرامے تحریر کیے ہیں، مگر ادبی حلقوں کی جانب سے انہیں 'ادیب' پھر بھی نہیں مانا جاتا۔ جب میں نے ان سے اس بات کی وجہ پوچھی، تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادیب کہلانے کے لیے آپ کا کام کتابی شکل میں شائع ہونا ضروری ہے، جبکہ وہ اب بھی اس منزل پر نہیں پہنچے۔

بقول انور مقصود صاحب کے، یہ اصول صرف پاکستانی ادبی حلقوں کا بنایا ہوا نہیں، بلکہ عالمی طور پر تسلیم شدہ ہے، اور اسی لیے وہ اب تک ادیب کا لقب حاصل نہیں کر سکے ہیں۔

اگر ہم اسی کلیے کی بناء پر باب ڈلن کی گیت نگاری کو دیکھیں، تو ہاں ضرور ان کی گیت نگاری آفاقی اہمیت کی حامل ہے، لیکن کیا وہ ابھی کتابی صورت میں موجود ہے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔

نوبیل پرائز ایک اہم ترین اعزاز ہے۔ دنیا بھرمیں اس کو قدر اور تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سوئیڈش اکیڈمی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے کسی فیصلے سے ادیبوں اور قارئین کی حق تلفی نہ ہو، ورنہ یہ اعزازات اپنی مقبولیت کھونے لگیں گے۔

انعامات کا فیصلہ اگر تخلیق کے بجائے تجربات کی بناء پر کیا گیا، تو یہ اعزاز عطا کرنا نہیں بلکہ بندر بانٹ کہلائے گا، اور یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک چل نہیں پائے گا، کیوں کہ آخری فیصلہ تخلیقات پر ہوتا ہے، جس کے سب سے بڑے منصف وقت اور قارئین ہوتے ہیں۔ انعامات کسی کو وقتی طور پر تو فائدہ پہنچا سکتے ہیں، مگر ادب کی تاریخ میں وہی ادیب زندہ رہے گا جس کے پلے اصل ادب ہوگا، باقی سب زیاں ہے۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔