دنیا

پاک بھارت کشیدگی برِکس اجلاس پر بھی غالب

برِکس اجلاس کے دوران بھارت کی تمام تر توجہ پاکستان کو تنہا کرنے کی اپنی مہم پر ہو گی۔

ہندوستان گوا میں برِکس (برازیل روس انڈیا چین جنوبی افریقا) ممالک کے اجلاس کی میزبانی کے دوران پاکستان کو تنہا کرنےاور بین الاقوامی برادری کو متحد کرنے کی مہم شروع کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے لیے برکس ممالک کے رہنماؤں کی موجودگی ایک ایسا موقع تصور کی جا رہی ہے جس میں وہ پاکستان کے ساتھ ہونے والی سرحدی کشیدگی سے بھارتی سیکیورٹی کو لاحق خطرات کا ذکر کریں۔

لیکن اجلاس میں میز کی دوسری جانب موجود چینی صدر ژی جن پنگ کو پاکستان کے ساتھ اپنے اتحاد پر کسی بھی قسم کےشکوک و شبہات کا شکار ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کشیدگی بڑھانا کسی کے مفاد میں نہیں

سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کے مطابق اجلاس کے اختتامی اعلامیے میں متوقع طور پر پہلے کی طرح ’دہشتگردی کی تمام صورتوں‘ کی مذمت کی جائے گی، لیکن جنوبی ایشیا کے ان دو نیوکلیئر پاور ملکوں کے درمیان کشیدگی پر برابر الزامات لگانے سے گریز کیا جائے گا۔

اجلاس میں برکس ممالک کے رہنما عالمی معیشت، مالی اتحاد اور آپس میں تجارت پر خطابات کریں گے لیکن بھارت کی چھیڑی اس بحث کی وجہ سے لگتا یہ ہے کہ گروپ کے آٹھویں سالانہ اجلاس میں سیکیورٹی کا معاملہ حاوی رہے گا۔

بھارتی وزارت خارجہ کے افسر امر سنہا نے اجلاس سے قبل بریفنگ میں واضح کیا کہ، ہم اجلاس میں عالمی معیشت اور سیاسی صورتحال پر غور کریں گے جب کہ یقینی طور پر دہشتگردی کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔

چین پاکستان کا مستقل ’خوش ساتھی‘ نہیں

ایک طرف جہاں مودی اور چینی صدر بہت سے معاملات پر اتفاق نہیں کرتے وہیں دوسری جانب دونوں ہی رہنماؤں کی خواہش ہے کہ اسلام آباد کی جانب سے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی جائے جو ساڑھے 51 ارب ڈالر کی مالیت سے بننے والے اقتصادی راہداری منصوبے کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔

جنوبی ایشیا کے حالات پر نظر رکھنے والے واشنگٹن کے ولسن سینٹر کے سینئر افسرکے مطابق ،اسلام آباد سے جاری ہونے والےبیان کے برعکس چین ہر صورتحال میں پاکستان کا ساتھی نہیں، پاکستان میں جاری چینی سرمایہ کاری اور بڑھتے معاشی اثاثوں کی موجودگی میں چین کا فکرمند قدرتی امر ہے، جہادی گروہوں کی وجہ سے پاکستان کے استحکام کو خطرہ ہے اور نتیجتاً چین کا معاشی مفاد بھی متاثر ہوسکتا ہے۔

18 ستمبر کو ہندوستانی آرمی بیس پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں 19 ہندوستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت کی جانب سے مشتبہ دہشتگردوں کے خلاف سرحد پار کی جانے والی مبینہ کارروائی جسے ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کے نام دیا جارہا ہے، کے علاوہ نئی دہلی نے اسلام آباد کو علیحدہ کرنے کی سفارتی کوشش بھی شروع کر رکھی ہے۔

پاکستان کی جانب سے اڑی آرمی بیس پر ہونے والےحملے کی مسلسل تردید کی جارہی ہے اور ساتھ ’سرجیکل اسٹرائکس‘ کو بھی بھارتی جھوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سرجیکل اسٹرائیکس کابھارتی دعویٰ 'جھوٹا'، فائرنگ سے 2 پاکستانی فوجی جاں بحق

اسلام آباد کی کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ ہندوستان اس واقعے کو استعمال کرکے مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد جاری اپنے سیکیورٹی کریک ڈاؤن سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں کشیدگی کے دوران اب تک 80 کشمیری جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں جب کہ طویل کرفیو سے لاکھوں افراد متاثر ہیں۔

مدد کے جذبات

اڑی حملے کے بعد انڈیا بہت جلد مغرب اور روس سے ہمدردی اور مدد حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، یہاں تک کہ، روسی صدر ولادی میر پیوٹن گوا میں ہندوستانی صدر کے ساتھ ملاقات بھی کریں گے۔

شنگھائی کے بین الاقوامی تعلقات کے ادارے کے ڈائریکٹر ژاؤ گین چینگ کا اس متعلق کہنا ہے کہ پاکستان اور چین دونوں ہی ممالک اقتصادی راہداری کو لاحق خطرات پر گہری توجہ دے رہے ہیں۔

جنوبی ایشیا ئی حالات پر نظر رکھنے والے ژاؤ کے مطابق، اگر پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال بہتر نہیں ہوتی تو پاکستان کے کچھ پراجیکٹس متاثر ہوسکتے ہیں،خاص کر وہ معاملات جو انفرااسٹرکچر سے جڑے ہیں۔

ساتھ کام کرنے والےگروہ

ہندوستانی وزارت دفاع کے افسر، سنہا اس بارے میں کہتے ہیں کہ، برِکس رہنما اپنے قومی سلامتی کے مشیران کی جانب سے دیے جانے والے پلانز کو سپورٹ کریں گے تاکہ ہم مل کر سائبر سیکیورٹی،کاؤنٹر ٹیررازم، اور توانائی کی سیکیورٹی جیسے معاملات پر کام کرسکیں۔

لیکن سفارتکاروں اورتجزیہ کاروں کے مطابق انڈیا کے این ایس جی کا حصہ بننے کی پرانی خواہش گوا میں چینی موقف کی موجودگی میں مشکل ہی سے پوری ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ، چین نے اقوام متحدہ میں جیش محمد کے رہنما مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی حمایت نہیں کی تھی، مسعود اظہرپر انڈیا کی طرف پٹھان کوٹ حملے میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

چین نے گذشتہ دنوں اس مطالبے کو مزید تین مہینے کے لیے موخرکردیا تھا۔

بھارت ایک جانب جہاں امریکا سے پارٹنرشپ مضبوط کررہاہے وہیں چین اپنی معاشی اور اسٹریٹجک تعلقات کو بحر ہند تک لے کر جارہا ہے، چینی صدر جمعے کے روز بنگلادیش کا دورہ کرنے والے ہیں جہاں ان کا 24 بلین ڈالر کے قرضوں کی منظوری دینے کا امکان ہے۔

لندن کے رائل یونائٹڈ سروسز ادارے کے سینئر محقق سشانک جوشی برِکس اجلاس کو مجموعی طورپر ’عجیب‘ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھارت کا بنیادی مقصد پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا ہے۔