نقطہ نظر

اورنج ٹرین منصوبہ: کیا سپریم کورٹ تاریخی ورثہ بچائے گی؟

منصوبے کے لیے جاری کیے گئے این او سیز میں کئی مسائل تھے، مگر اس کے باوجود منصوبے پر کام شروع کر دیا گیا۔

رواں اگست لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے 11 تاریخی مقامات سے دو سو فٹ سے کم فاصلے پر ہونے والی لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کی تعمیر فوری طور پر روکنے کا فیصلہ اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ منصوبہ سی پیک کا حصہ ہے۔

چینی ٹھیکیدار سی آر- نورینکو کو دیے گئے 1.47 ارب ڈالرز کے اس منصوبے سے پانچ تاریخی مقامات کو خطرات لاحق ہیں۔ ان میں، شالامار باغ، گلابی باغ گیٹ وے، بدھو کا مقبرہ، چوبرجی، اور زیب النساء کا مقبرہ شامل ہیں۔

ان مقامات کے ساتھ دیگر پانچ اہم مقامات کو بھی اس منصوبے سے خطرہ ہے: ان میں لکشمی بلڈنگ، جنرل پوسٹ آفس، ایوانِ اوقاف (شاہ چراغ) بلڈنگ، سپریم کورٹ رجسٹری بلڈنگ اور موج دریا دربار اور مسجد شامل ہیں۔

لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے عمارتیں مسمار کیے جانے نے لاہور کے شہریوں کو حیرت میں ڈال دیا جس کے بعد اس مسئلے کو منظر عام پر لایا گیا۔

ایل ڈی اے نے جیسے ہی جنرل پوسٹ آفس کے ورانڈے کو گرانے کا کام شروع کیا، تو 20 کے قریب تنظیموں کے ایک گروپ اور کئی افراد نے ساتھ مل کر حکومت اور ارکان اسمبلی میں لابنگ شروع کردی۔ انہوں نے حقِ آگاہی کی درخواستیں جمع کروائیں اور پٹیشنز دائر کیں۔

پڑھیے: اورنج لائن ٹرین منصوبے کی زد میں 11 ثقافتی ورثے

جو سب سے پہلا مسئلہ عدالت میں پیش کیا گیا وہ نو آبجیکشن سرٹیفکیٹس (این او سیز) کے قانونی جواز کے متعلق تھا جن کے تحت اس منصوبے کی تعمیر کی اجازت دی گئی تھی۔

این او سیز محمکہء آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں، جنہیں آثارِ قدیمہ ایکٹ 1975 کے سیکشن 22 کے تحت اس بات کا تعین کرنا ہوتا ہے کہ کیا ان تاریخی جگہوں سے 200 فٹ کے اندر تعمیرات ان پر اثرانداز ہوں گی یا نہیں۔

ان سرٹیفیکیٹس کی خصوصی احاطوں کے تحفظ کے قانون پنجاب اسپیشل پریمیسز (پرزرویشن) آرڈینینس 1985 (پی ایس پی او) کے تحت تشکیل دی گئی کمیٹی، جن کا کام خاص عمارتوں کو نقصان سے بچانا ہے، نے بھی منظوری دی ہے۔

سابق ڈی جی نے ان مقامات پر ناقابل تلافی اثرات کے بارے میں اعتراضات اٹھائے تھے مگر نئے ڈی جی نے چارج سنبھالتے ہی ماہرین اور پی ایس پی او کے تحت تشکیل دی گئی اصل کمیٹی کی رپورٹس پر دھیان دیے بغیر این او سیز جاری کر دیے۔

این او سیز کے اجرا میں موجود نقائص کو تسلیم کیا گیا اور مئی 2016 میں اضافی تحریری مسودے جاری کیے گئے، مگر اس وقت تک منصوبے پر تعمیر کا کام پہلے سے شروع ہو چکا تھا۔

سب سے ضروری بات یہ کہ نئے این او سیز کے اجرا میں اب بھی طریقہء کار کے حوالے سے نقائص موجود تھے۔

آثارِ قدیمہ ایکٹ کے تحت تشکیل پانے والی ایڈوائزری کمیٹی کی غیر جانبداری مشکوک تھی کیوں کہ اس میں شامل ممبرز کا تعلق حکومت سے تھا جیسے وہ ڈی جی جنہوں نے سب سے پہلے ناقص این او سیز جاری کیے تھے۔

ان میں سے ایک ڈاکٹر پامیلا روجرز بھی تھیں، جن کے تاریخی ورثے پر اثرات کے متعلق جائزے کو عدالت نے یہ جان کر رد کر دیا کہ یہ جائزہ یادگاروں اور تاریخی مقامات کی بین الاقوامی کونسل کے تجویز کردہ معیار پر پورا نہیں اترتا۔

اس کے علاوہ کمیٹی ایسی ماہرانہ رپورٹس پر انحصار کر رہی تھی جو کہ ناقابلِ اعتبار تھیں۔

یہ رپورٹس نیشنل انجنئرنگ سروسز اور ایل ڈی اے نے تیار کی تھیں، جو دونوں ہی سرکاری ادارے ہیں۔ آزاد انجینیئرز کی جانب سے پیش کی گئی انتہائی اہم معاملات پر رپورٹس، جیسے تعمیری کام سے ہونے والی لرزش کا تجزیہ، کو زیرِ غور ہی نہیں لایا گیا۔

مزید پڑھیے: مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر اور اورنج لائن منصوبہ؟

کمیٹی نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے این او سی میں نقصان کم سے کم رکھنے کے لیے بھی تجاویز دے ڈالیں، حالانکہ ان کا کام صرف ممکنہ نقصان کا تخمینہ لگانا تھا۔

اس لیے عدالت نے یہ نتیجہ نکالا کہ دونوں، اصل اور ترمیم شدہ این او سیز غیر قانونی، بے بنیاد اور جانبدارانہ ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے تاریخی مقامات کے قریب تعمیر کا کام روکنے کے فیصلے کے باوجود، ان عمارتوں کی قسمت کا اب بھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا کیونکہ اس کیس کو سپریم کورٹ میں لے جایا جا رہا ہے، جہاں یہ کیس 13 اکتوبر کو پیش ہوگا۔

حکومت اپنا یہ مؤقف پیش کرنے جا رہی ہے کہ تمام تر قانونی مراحل باضابطہ طور پر انجام دیے گئے اور این او سی کو درست مانا جائے۔

جہاں اس مخصوص کورٹ کیس کا تعلق صرف ثقافتی و تاریخی مقامات سے ہے، وہاں مجموعی مسئلہ اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے، اس لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ان سوالوں کے جوابات پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

جب عام لوگوں کے زمین اور وسائل پر حق کی بات آتی ہے تو بڑے تعمیری منصوبوں کے کئی نتائج ہوتے ہیں۔

اورنج لائن منصوبہ 27 کلومیٹر طویل ہے اور اس کے راستے کے ساتھ مقیم لوگوں کو ہٹایا جا رہا ہے تاکہ حکومت زمین حاصل کر سکے۔

ان میں زیادہ تر غریب ہیں اور ان میں سے چند تو 1947 میں ہجرت کر کے آنے والے لوگ ہیں۔

حکومت نے ان لوگوں کو معاوضہ بھی دیا ہے مگر اس میں بھی کافی مسائل موجود ہیں۔

لوگوں کو ان کے شناختی کارڈز اور بجلی کے بلوں کی بنیاد پر نقد رقوم فراہم کی گئیں۔

مگر جس زمین پر حکومت نظر رکھے ہوئے ہے وہاں ایسے کئی رہائشی بھی ہیں جن کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں جس سے وہ اپنی رہائش کا قانونی جواز پیش کر سکیں۔

حکومت یہ بھی اعلان کر چکی ہے کہ اگر بعد میں کوئی ایسا رہائشی پایا گیا جس کے پاس پراپرٹی کے کاغذات نامکمل ہوئے تو انہیں حکومت کو پیسے لوٹانے ہوں گے۔

مذہبی طور پر اہمیت کی حامل عمارتیں بھی خطرے کی زد میں ہیں، ان میں امام بارگاہیں اور سینٹ اینڈریوز چرچ بھی شامل ہیں۔

درجنوں اسکولوں کے بھی مسمار کیے جانے کا خطرہ ہے۔

ضرور پڑھیے: زندگی کی ٹرین اور لاہور کا قرض

لاہور ہائی کورٹ نے کئی حکمِ امتناعی بھی جاری کیے ہیں مگر ہمیں انتظار کرنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ مسائل آخر کار کس طرح حل کیے جاتے ہیں۔

یہ مسئلہ لاہور کے اورنج لائن منصوبے سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور اس میں سی پیک سے متعلق تمام منصوبے شامل ہیں۔

اب جبکہ سی پیک پر عمل درآمد تیزی سے جاری ہے، تو ہمیں یہ پوچھنا ہوگا کہ کیا ماحول کے تحفظ اور زمین کے حصول کے متعلق تمام تر قانونی لوازمات تسلی بخش طور پر پورے کیے گئے ہیں یا نہیں۔

کیا لوگوں سے آزادانہ، پیشگی اور مطلع رضامندی حاصل کی جا چکی ہے؟

کیا ہمارے ملک میں لوگوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے مناسب قوانین موجود ہیں؟

کیا ایسے کسی قانون میں اصلاح کی ضرورت ہے؟

ایسے ادارے جو بغیر سوچے سمجھے کیے گئے عمل سے تحفظ فراہم کرتے ہیں کیا وہ مضبوط ہیں یا وہ بھی جدید ترقی کے لیے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں؟

سپریم کورٹ کے فیصلے پر بہت کچھ منحصر ہے۔ اگر ہم مستحکم ترقی کی راہ پر گامزن ہونے جا رہے ہیں تو ہم اپنے ثقافتی ورثے، فطرت اور ماحول کا تحفظ بھی کر سکتے ہیں۔

ایسا ممکن بنانے کے لیے سول سوسائٹی کا تحرک اور میڈیا کی چھان بین ضروری ہے تاکہ عدالتوں اور حکومت پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے۔

عبیرہ اشفاق

عبیرہ اشفاق قانون پڑھاتی ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: oilisopium@.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔