کوئی آخر کس طرح بن کباب کا ذائقہ لفظوں میں بتا سکتا ہے؟
آپ کو اس کی خوشبو محسوس کرنی ہوتی ہے، چکھنا ہوتا ہے اور اس کی لذت کا بھرپور مزہ اٹھانا ہوتا ہے، پھر جا کر آپ حقیقی طور پر اس کا ذائقہ جان سکتے ہیں۔ ہاں، ایک بن کباب کا تجربہ کرنے کا واحد یہی ایک طریقہ ہے۔
بچپن میں میرے پسندیدہ بن کباب، کراچی کے علاقے نرسری میں واقع خیام سینما کے سامنے موجود ایک ریڑھے پر فروخت ہوتے تھے۔
ہر وہ شخص جو 70 اور 80 کی دہائی میں بڑا ہوا ہے، اس نے ضرور مشہور و معروف چنا شامی کباب کھائے ہوں گے جس میں انڈا، چٹنی، ٹماٹر اور پیاز شامل ہوتے، جو خیام سینما کے چوک پر پان کی دکان کے سامنے ملباری کی دکان اور بلو ربن بیکری کے درمیان کونے پر کھڑے ٹھیلے پر فروخت کیے جاتے تھے۔
سنہرا براؤن، نرم، چٹنی سے بھرپور اور لذیذ بن کباب صرف ایک روپے 25 پیسے میں دستیاب ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ میں اپنے لیے ہر بار دو بن کباب لانے کا کہتی۔ اس کی لذت کا مزا اٹھانے یا ان خوبصورت برسوں میں اس پیٹو کے لیے ایک بن کباب کافی نہیں ہوتا تھا۔
شاید اسٹریٹ فوڈ کی دیوانگی ہی بچپن میں میرے موٹاپے کی وجہ رہی ہوگی۔ اور اگر ٹھیلے کے بن کباب سے پیٹ نہ بھرتا، تو میری نانی کے ہاتھوں سے بنے گھر کے بن کباب بھی تو تھے، اس لیے میں بچپن سے ہی سچ مچ انہیں کھاتے بڑی ہوئی ہوں۔
اور ہاں ان گھر کے بن کباب میں ہمیشہ ایک ورائٹی ہوتی، جیسے آلو کٹلیٹس کے بن کباب، شامی بن کباب اور چپلی کباب کے بن کباب ہوتے۔ ذائقے سے بھرپور پلیٹ پر دیسی ٹوئسٹ بھی ساتھ ہوتا۔