’الطاف حسین سے دوبارہ معافی کی نوبت آئی تو سیاست چھوڑ دوں گا‘
کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کو عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے اور امید ہے کہ یہ قائم رہے گی، تاہم اگر ایسا موقع آیا کہ مجھے دوسری بار الطاف حسین سے معافی مانگنا پڑی تو میں ایسا کرنے کے بجائے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلوں گا۔
جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں بات کرتے ہوئے عامر خان نے کہا کہ ’میں ایم کیو ایم پاکستان اور فاروق ستار کے ساتھ کھڑا ہوں، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایم کیوایم کے منشور میں لکھا ہوا ہے کہ پارٹی اپنے حقوق کے لیے جو بھی جدوجہد کرے گی وہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے کرے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان مخالف نعرے کے بعد اس بات کی کوئی گنجائش نہیں بچی تھی کہ ایم کیو ایم پاکستان اور لندن مل کر چلیں، اس دن ایک لائن کھینچ گئی جس کے ایک طرف ایم کیو ایم پاکستان اور دوسری طرف ایم کیو ایم لندن ہے جو پاکستان مخالف نعرہ لگاتی اور جس سے اب ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
عامر خان نے کہا کہ ’الطاف حسین 22 اگست کی تقریر سے قبل بھی ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی اور شعبہ جات کے ذمہ داران کے ساتھ اکثر اس طرح کی گفتگو کرتے تھے اور میں پاکستانی اور ایم کیو ایم کا کارکن ہونے کے ناطے لندن میں اپنے ساتھیوں کو اس بات سے آگاہ کرتا رہتا تھا کہ جس طرف معاملات جارہے ہیں وہ نامناسب ہیں اور اردو بولنے والا طبقہ کسی صورت پاکستان مخالف نہیں جائے گا۔‘
یہ بھی پڑھیں: الطاف حسین سے قطع تعلق کا اعلان
انہوں نے کہا کہ ’میرے بار بار بتائے جانے کے باوجود 22 اگست کو بدقسمتی سے وہ سب چیزیں سامنے آگئیں جس کے بعد ساتھ چلنا ممکن نہیں رہا، اگرچہ میری بات سے لندن کے اہم ذمہ داران نے بھی اتفاق کیا لیکن ایسا چلتا رہا اور میری بات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’22 اگست کو رونما ہونے والے واقعے سے متعلق مجھے قطعی طور پر کوئی علم نہیں تھا، جبکہ تقریر میں پاکستان مخالف باتیں شروع ہوئیں تو میں نے لندن فون کرکے کہا اس سلسلے کو روکا جائے ورنہ صورتحال بہت خراب ہوجائے گی لیکن بدقسمتی سے یہ سلسلہ نہ رُک سکا۔‘
مصطفیٰ کمال اور پاک سرزمین پارٹی کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنوینر نے کہا کہ ’مصطفیٰ کمال کی سیاست کا پہلے دن سے بنیادی نقطہ گالی بکنا اور بُرا بھلا کہنا تھا، وہ جس طرح گفتگو کرتے ہیں یہ ہماری تہذیب نہیں ہے اور میں الطاف حسین سے متعلق کبھی اس طرح بات نہیں کروں گا۔‘
مزید پڑھیں: الطاف حسین کے بغیر ایم کیو ایم کچھ نہیں، ندیم نصرت
انہوں نے کہا کہ ’مصطفیٰ کمال کی نہ عوام نہ کارکنان میں کوئی پذیرائی ہے، پہلے حقیقی کو لایا گیا اب پاک سرزمین پارٹی کو لایا گیا ہے، یہ وہی 1992 والا اسکرپٹ ہے جو فلاپ ہوگیا ہے، عوام نے پہلے حقیقی کو مسترد کیا اور اب پاک سرزمین پارٹی کو بھی مسترد کردیا۔‘
عامر خان نے کہا کہ ’ایم کیو ایم پاکستان کو عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے اور مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یہ قائم رہے گی، تاہم اگر ایسا موقع آیا کہ مجھے دوسری بار الطاف حسین سے معافی مانگنا پڑی تو میں ایسا کرنے کے بجائے سیاست سے کناری کشی اختیار کرلوں گا۔
22 اگست کے واقعے کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے عامر خان کا کہنا تھا کہ ’واقعے کے بعد چار روز تک میرا لندن کے ساتھیوں سے کئی بار جبکہ الطاف حسین سے ایک بار رابطہ ہوا، میں نے بانی ایم کیو ایم سے کہا کہ اب جو ہوگیا اس کے بعد اب آپ خاموش رہیں، ایم کیو ایم کو پاکستان میں کام کرنے دیں اور آپ اپنے علاج پر توجہ دیں۔‘