پاکستان

’جمہوریت کے خلاف ایک اور لندن پلان کی تیاری‘

برطانیہ میں اپوزیشن رہنما ایسا تالہ ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے جس سے اسلام آباد کو بند کیا جاسکے، اسپیکر ایاز صادق

لاہور: اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے متعدد رہنماؤں کی مختلف وجوہات کی بناء پر برطانیہ روانگی کو حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جمہوریت کے خلاف ایک اور ’لندن پلان‘ قرار دے دیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر ترین اور چوہدری سرور کے علاوہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید حال ہی میں لندن روانہ ہوئے ہیں جہاں پاکستان عوامی تحریک(پی اے ٹی) کے سربراہ طاہر القادری پہلے ہی موجود ہیں۔

حکمراں جماعت عمران خان کی جانب سے 30 اکتوبر اسلام آباد ’بند‘ کرنے کے اعلان کے بعد اپنی کمر کس رہی ہے اور ایسے موقع پر ان رہنماؤں کا لندن جانا ن لیگ کے رہنماؤں کے لیے مزید پریشانی کا سبب بن گیا۔

یہ بھی پڑھیں: 30 اکتوبرکواسلام آباد بند نہیں ہوگا: ایاز صادق

قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے اس حوالے سے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’اپوزیشن رہنما لندن میں ملاقات کے دوران ایسا تالہ ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے جس سے اسلام آباد کو بند کیا جاسکے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ’جمہوریت اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے خلاف سازش ہے تاہم یہ کامیاب نہیں ہوگی اور لندن کے دورے کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا‘۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پی ٹی آئی کو 30 اکتوبر کو دارالحکومت میں خلل پیدا نہیں کرنے دیں گے، عمران اپنے احتجاج کرنے کا حق ضرور استعمال کریں تاہم انہیں جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کے لیے کام نہیں کرنا چاہیے۔

اسپیکر ایاز صادق نے پی ٹی آئی نے پچھلی بار بھی 40 دنوں تک اسمبلی کا بائیکاٹ کیا تھا تاہم اس بار ان کے ساتھ وہ نرمی نہیں برتی جائے گی۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس:عمران خان کی نواز شریف کو محرم تک کی ڈیڈ لائن

ان کا کہنا تھا کہ تمام مسائل کا حل سڑکوں پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں ہے، کشمیر کے معاملے پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اس معاملے پر قومی اتحاد کا پیغام جانا چاہیے تھا تاہم پی ٹی آئی نے اس سے بھی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔

ن لیگ کے رہنما محمد مہدی نے ڈان کو بتایا کہ ممکن ہے 30 اکتوبر کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لیے عمران خان بھی لندن جائیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان غیر آئینی طریقوں سے حکومت کو گرانا چاہتے ہیں، دیگر سیاسی جماعتیں وقت کے ساتھ ساتھ سمجھدار ہوگئیں لیکن عمران خان اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے اضطراب کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی احتجاج میں شرکت کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے تاہم مجھے نہیں لگتا کہ اس بار طاہر القادری خود کو استعمال کرنے کی اجازت دیں گے‘۔

دوسری جانب اپوزیشن کے کئی ارکان نے حکومت کو درپیش ’لندن پلان‘ کے خوف کو بے جا قرار دیا ہے۔

پی ٹی آئی کے شفقت محمود نے ڈان کو بتایا کہ جہانگیر ترین طبی معائنے اور چوہدری سرور مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لیے برطانیہ گئے ہیں اور حکومت کے پروپیگنڈا کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’عمران خان کی دھمکیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘

پاکستان عوامی تحریک نے بھی حکومت کی قیاس آرائیوں پر ناراضی کا اظہار کیا اور پارٹی ترجمان نے اس بات کی تردید کی کہ طاہر القادری اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے کسی نے بھی 30 اکتوبر کے احتجاج کے حوالے سے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے تعلقات اچھے ہیں جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی حکمراں جماعت کے ترجمان کا کردار ادا کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ 30 اکتوبر کے بعد حکومت کو کام کرنے نہیں دیں گے۔

پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ یا تو وزیر اعظم عہدہ چھوڑ دیں یا پھر اپنے اہل خانہ کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے حوالے سے ٹرمز آف ریفرنس کو تسلیم کریں۔