پاکستان

اے پی ایس مقدمہ: چوہدری نثار، پرویز خٹک کی نامزدگی پر غور

حملے میں جاں بحق میں ہونے والےبچوں کے والدین واقعے کی ایف آئی آر میں ترمیم کے لیے پولیس میں درخواست دائرکرنے جارہے ہیں۔

اسلام آباد: پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے میں جاں بحق میں ہونے والے بچوں کے والدین واقعے کی ایف آئی آر میں ترمیم کے لیے پولیس میں ایک درخواست دائر کرنے جارہے ہیں۔

16 دسمبر 2014 کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے نتیجے میں 132 بچوں سمیت 150 افراد کی ہلاکت کے واقعے کے بعد پشاور کے غربی پولیس اسٹیشن میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی، تاہم اس میں کسی کو بھی نامزد نہیں کیا گیا تھا۔

حملے میں جان کی بازی ہارنے والے سیکنڈ ایئر کے طالب علم یاسر اقبال کے والد شیر نواز نے بتایا کہ 'بچوں کے والدین نے جعمہ 7 اکتوبر کو ایک ملاقات میں فیصلہ کیا کہ وہ حملے کی ایف آئی آر میں ترمیم کے لیے ایک درخواست دائر کریں گے تاکہ اس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک، اسکول انتطامیہ اور خیبرپختونخوا کے متعلقہ وزراء کا نام بھی شامل کیا جاسکے۔'

بچوں کے والدین کا مطالبہ ہے کہ اس حوالے سے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ واقعے کے ذمہ داران کا تعین کرکے متعلقہ عہدیداران کو سزا دی جاسکے۔

شیر نواز نے کہا، 'ہم ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن کسی نے ابھی تک کچھ بھی کرنے کی زحمت نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ اب ہم 17 اکتوبر کو دوبارہ اسلام آباد جارہے ہیں'۔

مزید پڑھیں: پشاور سانحہ: 'میں نے موت کو قریب سے دیکھا'

اے پی ایس حملے میں جاں بحق ہونے والے بچوں کے تقریباً 60 اہلخانہ رواں برس یکم ستمبر کو اسلام آباد آئے تھے، جن کا مطالبہ تھا کہ وہ وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، لیکن انھیں ریڈ زون میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی، ان کا کہنا تھا کہ اگر انھیں نواز شریف سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی تو وہ وزیراعظم ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گے۔

وفاقی وزیر برائے کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈیولپمنٹ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے انھیں یقین دلایا تھا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر ان کی وزیراعظم سے ملاقات کو یقینی بنائیں گے، لیکن ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اس وعدے پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔

حملے میں جاں بحق ہونے والے طالب علم عروج خان کے والد اسفند خان نے بتایا، 'اسلام آباد سے کسی نے بھی والدین سے اب تک رابطہ نہیں کیا'۔

انھوں نے بتایا، 'کسی نے ایک فون کال کرنے کی بھی زحمت نہیں کی، ہمارے پاس اسلام آباد میں دھرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے، میں اپنے بیٹے کے بہت قریب تھا، کیونکہ وہ میرا سب سے بڑا بیٹا تھا، لیکن ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے حکومت نے اسلام آباد میں ایک اسکول اُس کے نام سے منسوب کردیا۔'

سپریم کورٹ کے ایک ایڈووکیٹ ریاست علی آزاد نے ڈان کو بتایا کہ ایک درخواست کے ذریعے ایف آئی آر میں ترمیم نہیں کی جاسکتی۔

تاہم انھوں نے وضاحت کی کہ 'والدین ایک بیان (Subsequent Statement) دائر کرسکتے ہیں، جس میں وہ ملزمان کو نامزد کرسکتے ہیں اور یہ موقف اختیار کر سکتے ہیں کہ انھیں معلوم ہوا ہے کہ یہ ملزمان واقعے کے ذمہ داران ہیں اور ان سے بھی تحیقیقات ہونی چاہئیں، بعدازاں پولیس اس بیان کو ایف آئی آر کے ساتھ منسلک کرے گی اور اس کی بنیاد پر ملزمان کو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔'

ایڈووکیٹ آزاد کا کہنا تھا کہ اس سے قبل سپریم کورٹ کے جسٹس دیدار حسین اور افتخار محمد چوہدری اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد حمید ڈار اور شوکت صدیقی سمیت دیگر سابقہ عدالتی فیصلوں میں یہ قرار دیا جاچکا ہے کہ 'بعد میں شامل کیے جانے والے بیان' (Subsequent Statement) پولیس کی نااہلی کو ثابت کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس ان بیانات کو گرفتاریوں کے لیے استعمال کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

یہ خبر 10 اکتوبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی