دنیا

ترکی میں خود کش دھماکا، 18 افراد ہلاک

صوبہ ھکاری میں خود کش دھماکے میں 18 افراد ہلاک ہوئے، 5 ٹن دھماکا خیز مواد ایک وین میں رکھا گیا تھا، ترک وزیراعظم

انقرہ: ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں کار بم دھماکے میں 9 سیکیورٹی اہلکار سمیت 18 افراد ہلاک اور 26 زخمی ہوگئے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ترک خبر رساں ادارے اناطولیہ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ بم دھماکا عراق اور ایران کی سرحد کے قریب ترکی کے صوبے ھکاری میں ہوا۔

دوگان خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے ضلع سیمدینلی کی سیکیورٹی چیک پوسٹ پر ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری کالعدم کردستان ورکر پارٹی (پی کے کے) پر عائد کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ دھماکا اس وقت ہوا جب سیکیورٹی اہلکار گاڑیوں کی تلاشی لے رہے تھے۔

ادھر ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے دارالحکومت استبول میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ ملک کے شمال مشرقی صوبے میں ہونے والے بم دھماکے میں 18 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 8 شہری شامل ہیں تاہم اس سے قبل واقعے میں 9 ترک فوجیوں کی ہلاکت کی اطلاعات تھیں۔

مزید پڑھیں: ترکی: پولیس آپریشن کے دوران 2 خودکش دھماکے

ان کا کہنا تھا کہ 'ایک وین میں 5 ٹن دھماکا خیز مواد موجود تھا جسے خود کش بمبار نے زور دار دھماکے سے اڑا دیا'۔

انھوں نے بتایا کہ واقعے میں 26 افراد زخمی بھی ہوگئے، جن میں 10 فوجی اہلکار اور 16 شہری شامل ہیں۔

ادھر سی سی این ترک کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ 2 ماہ سے صوبے ھکاری میں فوجی آپریشن کے دوران 'پی کے کے' کے 387 جنگجو ہلاک ہوئے۔

ترکی میں 1984 سے ترکی اور کرد تنازع میں اب تک 40 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ترکی، امریکا اور یورپی یونین نے پی کے کے کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔

اناطولیہ کے مطابق جولائی 2015 کے بعد سے اب تک جھڑپوں میں 600 ترکی فوجی اور 7000 'پی کے کے' کے جنگجو ہلاک ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی: شادی کی تقریب میں دھماکا، 50 افراد ہلاک

یاد رہے کہ رواں برس 15 جولائی کو ترک صدر طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ہونے والی فوجی بغاوت میں ناکامی کے بعد سے ترکی میں ایمرجنسی نافذ ہے اور بغاوت کی سازش میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔

دوسری جانب کرد باغیوں کی جماعت کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی جانب سے حملوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے، جسے ترکی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دیا جاتا ہے۔

اس سے قبل گذشتہ ماہ عیدالاضحیٰ کے پہلے روز ترکی کے مشرقی شہر وین میں حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کے ہیڈکوارٹرز کے باہر کار بم دھماکے کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکاروں سمیت 48 افراد زخمی ہوگئے تھے، جس کی ذمہ داری ترک حکام نے کردستان ورکرز پارٹی پر عائد کی تھی۔

رواں برس 26 اگست کو ترکی کے جنوب مشرق میں واقع صوبے سرنیک کے قصبے جزرے میں پولیس ہیڈکوارٹرز پر کار بم دھماکے کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک جبکہ 64 زخمی ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: عیدالاضحیٰ کے پہلے روز ترکی میں دھماکا، 48 زخمی

جبکہ 21 اگست کو شامی سرحد کے قریب ترکی کے شہر غازی انتیپ میں ایک شادی کی تقریب میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 50 افراد ہلاک اور 94 زخمی ہوگئے تھے، رپورٹس کے مطابق یہ دھماکا ممکنہ طور پر داعش کی جانب سے کیا گیا تھا کیوں کہ جس علاقے میں دھماکا ہوا، وہاں کردوں کی اکثریت تھی اور شادی میں بھی بڑی تعداد میں کرد کمیونٹی کے افراد شریک تھے۔

23 اگست کو بھی ترکی میں بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیم پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں 2 فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے، اس واقعے کا ذمہ دار بھی کرد باغیوں کو ہی ٹھہرایا گیا۔

ترکی میں کرد باغیوں کی تنظیم پی کے کے کی جانب سے 1984 میں علیحدگی کی مسلح تحریک شروع کی گئی، بغاوت کی اس تحریک میں 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں دوسری جانب حکومت بغاوت کچلنے کے فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ اصلاحات کی پالیسی بھی اختیار کیے ہوئے ہے۔