دنیا

بھارتی فوج کی فائرنگ سے کشمیری بچہ ہلاک

12سالہ لڑکافائرنگ سےشدید زخمی ہوگیا تھا جو بعد میں دم توڑ گیا،تدفین کے موقع پر مظاہرین اور فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

سری نگر: ہندوستانی فورسز کی فائرنگ سے 12 سالہ کشمیری لڑکے کے ہلاکت کے بعد سری نگر میں ایک بار پھر مظاہرے شروع ہوگئے۔

امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق گزشتہ روز سری نگر میں بھارت کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں بھارتی فورسز کی فائرنگ سے ایک 12 سالہ لڑکا شدید زخمی ہوگیا تھے جسے طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ ہفتے کی صبح چل بسا۔

بے گناہ کشمیری بچے کی ہلاکت کے بعد لوگ مشتعل ہوگئے اور انہوں نے بھارت کے خلاف نعرے لگائے بعد ازاں نماز جنازہ ادا کی گئی اور تدفین کے لیے سری نگر کے قبرستان جاتے ہوئے مشتعل افراد نے انڈین فورسز پر پتھراؤ کیا جبکہ آزادی کے حق میں نعرے بھی لگائے۔

مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کرنے پر بھارتی فورسز نے انتباہی فائرنگ، پیلٹ گن اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر میں مرچوں بھرے ہتھیاروں کے استعمال پر غور

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ لڑکا اپنے گھر کے احاطے میں شاٹ گن کے چھروں کی زد میں آیا اور اس کا گھر اس مقام سے 9 میٹر کے فاصلے پر تھا جہاں مظاہرین اور فورسز کے درمیان جھڑپ ہورہی تھی۔

اس جھڑپ میں کم سے کم 50 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔

علاوہ ازیں ایک پولیس افسر ریاض احمد نے بتایا کہ مسلح افراد کے حملے میں ایک پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ چند مسلح افراد جنوبی قصبے شوپیاں میں پولیس بنکر سے اسلحہ چرانے کی کوشش کررہے تھے تاہم پولیس کی مزاحمت پر انہوں نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 12 سالہ لڑکے جنید احمد کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں جاری حالیہ انتفادہ میں بھارتی فورسز کی جانب سے طاقت کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 110 تک پہنچ گئی۔

مزید پڑھیں: کشمیر کی التجا: ہماری آنکھیں ہم سے مت چھینیں

واضح رہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہانی وانی کی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے جدوجہد آزادی کی نئی لہر اٹھی تھی جو اب تک جاری ہے۔

کشمیر کے مختلف علاقوں میں تین ماہ سے زائد عرصے سے کرفیو نافذ ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے، اسکولز، دکانیں، دفاتر اور پٹرول پمپس وغیرہ بند ہیں جبکہ موبائل اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہونے کی اطلاعات ہیں ساتھ ہی کئی اخبارات پر بھی پابندی عائد کی جاچکی ہے۔

ہندوستانی فوج نے وادی کشمیر میں پیلٹ گنوں سے 700 سے زائد کشمیریوں کو کو بینائی سے محروم کردیا ہے۔

کشمیر سے اظہار یکجہتی اور بھارتی مظالم کے خلاف پاکستان نے عالمی سطح پر آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا اور 21 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں وزیر اعظم نواز شریف نے بھرپور طریقے سے کشمیر میں بھارتی مظالم کا تذکرہ کیا تھا۔

تاہم اس خطاب سے قبل ہی 18 ستمبر کو کشمیر میں بھارت کے اُڑی فوجی کیمپ پر حملہ ہوگیا جس میں 18 فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کی اطلاعات سامنے آئیں جب کہ اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا گیا۔

پاکستان نے بھارت کے اس الزام کو دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹانے کی کوشش قرار دے کر مسترد کردیا۔

یہ بھی پڑھیں:کشمیر میں ہندوستانی مظالم، ایل او سی کشیدگی پر قرارداد منظور

بعد ازاں 26 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے عالمی برادری سے پاکستان کو تنہا چھوڑ دینے کا مطالبہ کردیا۔

اس کے بعد 29 ستمبر کو بھارت نے آزاد کشمیر میں دہشت گردوں کے لانچ پیڈ پر سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا دعویٰ کیا تاہم پاک فوج نے اس دعوے کو یکسر مسترد کیا اور کہا کہ کوئی سرجیکل اسٹرائیک نہیں ہوئی بلکہ بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی اور بلا اشتعال فائرنگ سے دو پاکستانی فوجی جاں بحق بھی ہوئے۔

سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے پر بھارت کو اپنے ملک میں بھی کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور شواہد کا مطالبہ کیا گیا تاہم بھارتی حکومت کوئی ثبوت دینے میں ناکام رہی۔