پاکستان

'خاتون کو ہراساں' کرنے پر جامعہ کراچی کے پروفیسر گرفتار

ایف آئی اے نے فرحان کریمی کو گرفتار کرکے ان کے خلاف سائبر کرائم قانون 2016 کی دفعہ 21 کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے۔
|

کراچی: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سیل نے جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر کو خاتون ساتھی استاد کو ہراساں کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔

ڈاکٹر فرحان کریمی جامعہ کراچی کے شعبہ سائیکولاجی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور ایف آئی اے کو شکایت موصول ہونے کے بعد ان کی گرفتاری منگل کے روز عمل میں لائی گئی تھی۔

ان کے خلاف شکایت موصول ہوئی تھی کہ انھوں نے خاتون ساتھی استاد کا جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنا رکھا ہے، جس پر ان کی غیراخلاقی تصاویر پوسٹ کی گئی ہیں۔

مذکورہ خاتون استاد ایک نجی یونیورسٹی میں سائیکولاجی کے شعبے میں ہی لیکچرار ہیں جبکہ وہ جامعہ کراچی میں ویزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر کام کرتی ہیں۔

مزید پڑھیں: سابق بہنوئی سے بدلے کیلئے جعلی فیس بک اکاؤنٹ

ڈان ڈاٹ کام سے بات چیت کرتے ہوئے جامعہ کراچی کے کیمپس سیکیورٹی ایڈوائیزر ڈاکٹر عراقی نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 'ایف آئی اے نے فرحان کریمی کے خلاف درج کی جانے والی ایف آئی آر کی کاپی جامعہ کراچی کے رجسٹرار کو بھیج دی ہے اور اس پر کارروائی کرتے ہوئے وائس چانسلر (وی سی) نے پروفیسر کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے'۔

ڈاکٹر عراقی کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے اسسٹنٹ پروفیسر کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، جس میں آن لائن ہراساں کرنے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

ایف آئی اے نے فرحان کریمی کی جانب سے بنائی جانے والے جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو ان کی گرفتاری کے فوری بعد بند کردیا ہے۔

فرحان کریمی کے فیس بک پروفائل کے مطابق وہ جامعہ کراچی میں شعبہ سائیکولاجی سے وابستہ ہیں اس سے قبل وہ سندھ پولیس میں سائیکولاجسٹ کے طور پر کام کرچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سائبر کرائم بل قومی اسمبلی سے منظور

ادھر ایف آئی اے کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ایک نجی یونیورسٹی کی خاتون لیکچرار کی جانب سے ان کے جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنانے پر شکایت درج کرائی گئی تھی۔

اس حوالے سے ایف آئی اے نے مکمل تحقیقات کیں اور ملزم کی نشاندہی کیلئے فیس بک کی انتظامیہ سے بھی رابطہ کیا گیا، تصدیق کے بعد ایف آئی اے نے 4 اکتوبر کو ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی۔

ان کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم قانون 2016 کی دفعہ 21 کے تحت جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ایف آئی اے نے گذشتہ روز ملزم کو متعلقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جہاں ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا اور جمعہ کو ملزم کا جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر جوڈیشل حراست میں دے دیا گیا۔

ایف آئی اے کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ دوران تفتیش ملزم نے انکشاف کیا کہ وہ مذکورہ شکایت کنندہ خاتون کے ہمراہ پولیس کے سائیکولاجی ڈپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے۔

مزید پڑھیں: متنازع سائبر کرائم بل 50 ترامیم کے ساتھ سینیٹ سے منظور

اس کے علاوہ ملزم نے اعتراف کیا کہ خاتون کی وجہ سے پولیس ڈپارٹمنٹ سے نکالے جانے کا بدلہ لینے کیلئے انھوں نے خاتون کا جعلی فیس بک آئی ڈی بنایا تھا۔

واضح رہے کہ سائبر کرائم قانون 2016 کی دفعہ 21 کے مطابق ملزم کی ضمانت نہیں ہوسکتی جبکہ اس دفعہ کے مطابق شکایت کنندہ ملزم کو معاف بھی نہیں کرسکتا یا کرسکتی بلکہ اس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔

سائبر کرائم بل کیا ہے؟

انسداد الیکٹرانک کرائم بل میں کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کی روک تھام پرسزاؤں کا تعین کیا گیا، جس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکیورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی۔

سائبر کرائم کی ایک عام تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہر ایسی سرگرمی جس میں کمپیوٹرز یا نیٹ ورکس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کسی کو ہدف بنایا جائے یا مجرمانہ سرگرمیاں کی جائیں یا انہیں مخصوص فریقین کی جانب سے خلاف قانون سمجھا جائے۔

عام فہم انداز میں بات کی جائے تو مختلف سطحوں پر سائبر کرائمز میں لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشتگردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات و ای میلز، ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان میں سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس 2002 اور پاکستانی ٹیلی کمیونیکشن ری آرگنائزیشن ایکٹ 1996 جیسے قوانین نافذ ہیں، جبکہ 2009 میں پریوینٹیشن آف الیکٹرونک کرائمز آرڈنینس بھی سامنا آیا مگر یہ ابھی تک فعال نہیں ہو سکے ہیں۔

ان قوانین کے تحت ہیکنگ، غیر قانونی رسائی (کسی ای میل اکاﺅنٹ کی ہیکنگ)، مداخلت، پرائیویسی کی خلاف ورزی، الیکٹرونک و ٹیلی کام انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے اور گرے ٹریفک سمیت دیگر کو اہم جرائم قرار دیا گیا ہے، تاہم ان میں کئی اہم سائبر کرائمز کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔