نقطہ نظر

میروں، پیروں، سیدوں کا سندھ

سندھ میں سب کچھ سیدوں، پیروں، میروں اور مخدوموں کے گرد ہی گھومتا ہے۔


is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/98664928" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


جب چھوٹے تھے تو ہمارے محلے میں ایک سید رہتے تھے، میرا مطلب ہے سید تو ویسے بہت رہتے تھے لیکن یہ سید صاحب کسی قریب کے گاؤں گوٹھ سے آکر شہر میں رہ رہے تھے۔

ایک دفعہ اپنے شیدی نوکر کے ساتھ محلے سے گذر رہے تھے، چلتے چلتے اچانک سید صاحب نے اسے تھپڑ رسید کیا اور کہا کہ میری طرح چل رہے ہو!؟ یہ سنا سنایا نہیں اپنی آنکھوں دیکھا واقعہ ہے۔ بچپن میں تو ہم اس بات پر ہنستے تھے، بعد میں جب تھوڑی سمجھ آئی تو رونا بھی آیا۔

اب جب گاؤں گوٹھ سکڑنا شروع ہوگئے ہیں اور شہر کسی عفریت کی طرح پھیلتے پھیلتے ساری زمین، دریا، پہاڑ، درخت، جنگل سب کچھ نگلتے نگلتے ایک دوسرے کےقریب پہنچتے جا رہے ہیں، تو بھی میروں، پیروں، سرداروں اور سیدوں کا ہی راج ہے۔

ادب ہو، سیاست ہو، افسر شاہی ہو کہ انتظامیہ، طبقاتی تحریک ہو یا ترقی پسندی کا خیال، غریبوں کو حقوق دلانے ہوں یا سندھ کے ورثے اور ثقافت کو بچانا ہو۔ این جی او میں چلے جائیں یا تبدیلی پسندوں کے پیچھے ہو لیں، سب کچھ ان سیدوں، پیروں، میروں اور مخدوموں کے ارد گرد ہی گھومتا ہے۔

جمہوریت تو ویسے بھی ان کے گھر کی لونڈی ہے، تو اس میں اِن چھوٹے چھوٹے لوگوں کا کچھ بھی نہیں جاتا سوائے قربانیاں اور ووٹ دینے کے۔ باقی تو راج کرنے کا حق ان کا ہی ہے جو نسل در نسل انہیں منتقل ہوتا آیا ہے۔

اب تو وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنی پردہ دار بہو بیٹیاِں، بیویاں، چاچیاں، ماسیاں اور پھپھیاں سب کو اسمبلیوں میں لے آئے ہیں۔ خاندان کے خاندان پیدا ہی راج کرنے کے لیے ہوئے ہیں اور حزبِ اقتدار ہو کہ حزبِ اختلاف دونوں میں نمائندگی ایک ہی گھر کی ہوگی۔

باقی جو کارکن ہیں وہ تو پیدا بھی کارکن بننے کے لیے ہی ہوئے ہیں لہٰذا مرینگے بھی کارکن کی حیثیت سے۔ اگر بہت زیادہ قربانیاں دے دی ہیں تو چھوٹی موٹی اسامی اسے بھی دے دینگے کہ اس کی بھی روزی روٹی چلتی رہے۔

اِن کے اپنے تو جتنے خرچے ہیں وہ تو روزی روٹی سے زیادہ ہیں۔ اس لیے بڑی یا چکنی اسامیاں بھی گھر سے شروع ہو کر قریب کے رشتے داروں تک ہی پہنچ پاتی ہیں۔

باقی رہے غریب جن کے نام پر انہوں راج کرنا ہے تو انکے لیے بینظیر کارڈ ہے نا، میاں صاحب نے نام بدل دیا ہے تو کیا ہوا۔ انہوں نےبھی بجٹ میں اپنے کچھ غریبوں کے لیے رقم بڑھادی ہے تاکہ وہ بھی کچھ غریبوں کی خدمت کرسکیں۔

باقی سب تو ایسےہی چلتا رہے گا، غریب بھی خوش، خاندان بھی خوش۔ ویسے بھی سب سے بڑے حصے کے حقدار تو آپ کو معلوم ہے سب سے پہلے اپنا حصہ الگ کروالیتے ہیں اور آپ کو چوں بھی نہیں کرنی ہوتی۔ چوں کرنے کے نتائج سے تو آنے اور جانے والے حکمران ہمیشہ سے ہی واقف ہیں۔

وہ جو آنے اور جانے والے حکمرانوں میں کبھی شامل نہیں رہے، وہ طبقاتی جدوجہد، قومپرستی، ترقی پسندی اور نا جانے کیسے کیسےانقلاب لانے کے لیے نعرے لیے جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔ بڑے بڑے سبق پڑھتے ہیں اور پڑھاتے بھی ہیں۔ غریب کارکن کے سامنے پیاز سے روٹی کھائینگے تو اندرگھر میں جاکر چائینیز سے کم پر کھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ایسے ہی ان کی جدوجہد برسوں سے جاری ہے۔

کارکنان کی اکثریت ٹھیکےداروں میں تبدیل ہوتی جاتی ہے۔ ٹھیکے اور جدوجہد ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ ووٹ لے کر تو وڈیرے اور رئیس اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔ انکی روزی روٹی کا بندوبست تو اور بہت جگہ سے ہو ہی جاتا ہے۔

پہلے تو صرف سرکاری نوکریاں تھیں، افسریاں تھیں، ٹھیکے تھے۔ اب تو این جی او اور میڈیا کا دور ہے۔ روزی روٹی کے ساتھ ساتھ شام کا بھی بندوبست کرنا پڑتا ہے۔

ویسے ایسے بندوبست پہلے بھی ہوا کرتے تھے لیکن اب تو قوم کا اور قوم کی غربت کا درد رکھنے والے سیاسی، سماجی کارکن سے لے کرادب کے آسمان پر چمکتے ستارے ہوں یا فن کی بلندیوں کو چھونے والے فنکار یا پھر اس دور کی سب سے بڑی ضرورت دانشور حضرات، جن کی دانش کے دریا ہیں کے بہتے ہی چلے جاتے ہیں اور رکنے کا نام نہیں لیتے۔

سب شام ہوتے ہی قوم کی فکر میں گھلتے جاتے ہیں اور اپنے اگلے دنوں کا بندوبست بھی ساتھ میں ہی کر لیتے ہیں کہ ایسی محفل میں سارے پڑھے لکھے ہوتے ہیں بھلے وہ میڈیا میں ہوں، کسی بڑی اسامی پر براجماں افسر ہوں، چاہے پولیس میں ہوں یا انتظامیہ میں یا پھر تعلیم کا بیڑا غرق کرنے کا ذمہ اٹھایا ہو یا کسی این جی او کے ذریعے غریبوں کی زندگیاں بدلنے نکلے ہوں۔

دانشور ہوں کہ لکھاری سب ہم پیالہ اور ہم نِوالہ ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرنا انہیں خوب آتا ہے۔ آج کل تو ان کی گفتگو بھی بنگلوں، فلیٹوں کی قیمتوں سے لے کر گاڑیوں کے ماڈل پر آکر رک جاتی ہے۔

اتنی جدوجہد، دانشوری اور این جی اوز کے باوجود، غربت، کاروکاری، اغوا، ڈاکے، قتل و غارت اور لوٹ مار نئے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔

تعلیم اور گڈ گورننس تو صرف نام کے رہ گئے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں داخلے کے لیے نمائندوں نے اپنے آباؤ اجداد کے نام پر دروازے بنا دیے ہیں، جن پر بینروں کی بھر مار رہتی ہے اور شہر کی گلیاں راستے گندگی اور غلاظت کے ڈھیروں سے بھری رہتی ہیں۔

ایک دن چیخ پکار ہوتی ہے کہ سندھ کا پانی بند ہوگیا ہے۔ پھر اگر ہفتے بعد بارش کے دو چھینٹے پڑے تو پتہ چلے گا ظلم ہوگیا سیلاب آگیا، اب امداد بھی دیں۔

پچھلے تین برسوں سے یہی کھیل جاری ہے۔ سیلاب آتا ہے اور ان افسروں، این جی او والوں، میڈیا والوں اور سماجی کارکنوں کی جیبیں بھر کر چلا جاتا ہے۔

غریب کا نصیب تو یہی ہے کہ روٹی کے لیے پریشان رہے۔ جس کو روٹی نصیب نہیں اسے سیلاب میں بریانی کھلائی جاتی ہے وہ بھی مرچوں والی جو اسے سال میں ایک بار بھی نصیب نہیں ہوتی۔ اگر سیلاب ایسے ہی آتے رہے تو غریب بے چارے کو بریانی کھانے کی تو عادت پڑ ہی جائے گی۔

اپنے انقلابی ہوں، سماجی کارکن ہوں، این جی او والے ہوں، میڈیا والے یا انتظامیہ یا پھر پولیس والے، سارے ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہیں، سب مل کر ڈاکے ڈال رہے ہیں اپنی اپنی فیلڈ میں، اپنی اپنی حیثیت کے مطابق۔

سب سے بڑی ڈاکو ہے اپنی پولیس جس میں اپنے پڑھے لکھے افسر جو قوم کی خدمت کرنے کے لیے سی ایس ایس پڑھتے ہیں۔ انہوں نے اب اغوا برائے تاوان بھی شروع کردیا ہے۔

جو قصہ ہم نے شروع میں سنایا سید صاحب کا کہ میری طرح چل رہے ہو؟ ایسا ہی قصہ ہمارے ایک دوست کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ اپنے اعجاز ملاح جو پیدا تو غریب کے گھر میں ہوئے اور محنت سے انجینئر بھی بن گئے۔ معلوم نہیں انہیں کیا خیال آیا کہ اپنے پیر کے مقابل آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں کھڑے ہوگئے اور بہت سمجھانے پر بھی الیکشن سے دستبردار نا ہوئے۔ اب ہارنا تو ان کو تھا ہی اور ہار بھی گئے۔