’پاکستان میں توانائی منصوبے سست روی کا شکار‘
اسلام آباد : ایشین ڈیولپمنٹ بینک (اے ڈی بی) نے پاکستان میں توانائی کے منصوبوں پر قرض کے استعمال اور پراجیکٹس شروع کرنے کے حوالے سے سست روی پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق 6.4 ارب ڈالر کے سالانہ پورٹ فولیو کے مطابق تقریبا 3.1 ارب ڈالر توانائی کے شعبوں کے منصوبوں کے لیے مختص تھے، جس میں اقساط (یعنی ایم ایف ایف) کی صورت میں ملنے والی 43 فیصد رقم مختلف پراجیکٹس کے لیے رکھی گئی تھی جبکہ 29 فیصد رقم جامشورو پاور پراجیکٹ کے لیے استعمال کی جانی ہے ۔
اے ڈی بی کے مطابق ایم ایف ایف کے علاوہ ایگریکلچر، نیچرل ریسورسز اینڈ رورل ڈیولپمنٹ (اے این آر) سیکٹر میں ایم ایم ایف کی آدھی سے زائد رقم کا استعمال نہیں کی گئی، جس میں سے زیادہ تر رقم کو ٹرانسپورٹ اور توانائی کے شعبے میں استعمال کی جانی تھی ۔
اے ڈی بی کی جانب سے حکومت سے کہا گیا ہے کہ ان پراجیکٹس کی تفصیلات کی منظوری دی جائے، جنہیں نیشنل اکنامک کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے پراجیکٹ کے دستاویزات اے ڈی بی کی مینیجمنٹ کے سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں جلد میں منظور کیا جائے۔
اے ڈی بی کے جائزے کے مطابق قرض کی منظوری کے بعد پہلا کنٹریکٹ اوسط 13 ماہ بعد منظور کیا گیا۔
توانائی اور اے این آر کے منصوبوں نے زیادہ ٹائم لیا، دونوں میں اوسط وقت 18.1 ماہ اور 16.1 ماہ کا وقت لگا جبکہ 18.5 ماہ میں تین قرضے منظور کیے گئے جبکہ اس دوران 31 دسمبر 2015 تک کوئی کنٹریکٹ سائن نہیں کیا گیا ۔
اے ڈی بی کے مطابق اس معاملے کی تاخیر کی وجوہات میں ڈیرائن کامیسر نہ ہونا ،متعلقہ اداروں کے پاس وسائل کی کمی ، قانونی چارہ جوئی، پراجیکٹ کے مانیٹری یونٹ بنانے میں تاخیر اور پراجیکٹ انتظامیہ کو درپیش مسائل شامل ہیں۔
رپورٹ میں اداروں کے درمیان معائدوں کو اہم مسئلہ بیان کیا گیا ، اس میں ذمہ داری نہ لینا ، فیصلہ سازی ، پراجیکٹ مانیٹرنگ یونٹ سے اسٹاف کی تبدیلی میں عجلت ، پراجیکٹ مینیجمنٹ کی کمزور ساخت وغیرہ شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیاکہ اے بی ڈی اور حکومت کو پائپ لائن لائن پراجیکٹس کے لیے مکمل آمادگی حاصل کرنے کے لیے چند اقدامات کی ضرورت ہے، حکومت اعلیٰ سطح پر ایک سازگار ریگو لیٹری بنائے اور کسی ابہام کے بغیر قانونی ماحول فراہم کرے، منصوبے کی منظوری کے ساتھ ساتھ مقصد کے حصول کے لیے اہم فیصلوں کا اختیار اسٹیک ہولڈرز کو دیا جائے۔