’سندھ طاس معاہدہ پر امن شراکت داری کا نمونہ‘
واشنگٹن: امریکا نے سندھ طاس معاہدے کو پر امن شراکت داری کا نمونہ قرار دیتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان پر زور دیا کہ وہ معاہدے پر قائم رہیں۔
گزشتہ دنوں انڈین میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے پر سنجیدگی سے غور کررہا ہے تاکہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کو پالیسی بدلنے پر مجبور کیا جاسکے۔
اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سندھ طاس معاہدہ گزشتہ 50 سے زائد برسوں سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پرامن شراکت داری کے نمونے کے طور پر قائم ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان تمام باہمی اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے‘۔
یہ بھی پڑھیں:’ہندوستان سندھ طاس معاہدہ منسوخ نہیں کرسکتا‘
واضح رہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ 19 ستمبر 1960 کو ورلڈ بینک کی ثالثی میں کراچی میں ہوا تھا جس پر اس وقت کے پاکستانی صدر ایوب خان اور ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے دستخط کیے تھے۔
اس معاہدے کے تحت بھارت کو راوی، ستلج اور بیاس جبکہ پاکستان کو دریائے سندھ ، جہلم اور چناب کا پانی دیا گیا تھا اس کے علاوہ بھارت کو اس بات کی محدود اجازت دی گئی تھی کہ وہ مغربی دریاؤں سے بجلی وغیرہ بنانے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔
تاہم 18 ستمبر 2016 کو کشمیر کے علاقے اُڑی میں انڈین فوجی کیمپ پر ہونے والے حملے کے بعد ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ انڈس واٹر کمشنرز کے ششماہی مذاکرات معطل کردیے حالانکہ معاہدے کے تحت سال میں دو بار انڈس واٹر کمشنرز کا اجلاس ہونا ضروری ہے۔
گزشتہ ہفتے ہندوستانی وزیر نریندر مودی نے سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کے لیے جلاس کی صدارت کی تھی جس میں پانی کے تنازع کو خارجہ پالیسی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
پاکستان نے ہندوستان کو یاد دہانی کرائی تھی کہ عالمی قوانین اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی ملک نچلے علاقوں کو جانے والا پانی روکے اور اگر بھارت نے ایسا کیا تو پاکستان اسے جنگی اقدام تصور کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں:ہندوستان کا انڈس واٹر کمیشن کے مذاکرات معطل کرنے کا فیصلہ
27 ستمبر کو پاکستانی وفد نے واشنگٹن میں عالمی بینک کے سینئر حکام سے ملاقات کی تھی اور ان پر زور دیا تھا کہ وہ بھارت کو نیلم اور چناب پر غیر قانونی تعمیرات سے روکے۔
واشنگٹن میں موجود سفارتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ نئی دہلی میں ہونے والے اجلاس میں تین آپشنز پر غور کیا گیا: معاہدہ ختم کردیا جائے، ڈیم کی تعمیر دوبارہ شروع کردی جائے یا ششماہی مذاکرات معطل کردیے جائیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تینوں آپشنز اب بھی زیر غور ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو یہ معاملہ ورلڈ بینک کے پاس لے جانا پڑا۔
واضح رہے کہ بھارت میں تلبل پروجیکٹ کہلانے والے ڈیم پر تعمیر کا آغاز 1987 میں شروع ہوا تھا تاہم پاکستان کی جانب سے اعتراض کے بعد اس پر کام روک دیا گیا تھا تاہم اب ہندوستان نے اس پر دوبارہ کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک سینئر پاکستانی سفارتکار کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے لیے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنا مشکل ہوسکتا ہے کیوں کہ اس اقدام پر عالمی برادری کو تشویش لاحق ہوسکتی ہے البتہ وہ دیگر دو آپشنز پر کام کرسکتا ہے۔
ورلڈ بینک کے حکام سے ملنے والے پاکستانی وفد نے یاددہانی کرائی تھی کہ کشن گنگا پروجیکٹ بھی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
دوسری جانب ہندوستانیوں کا موقف ہے کہ انڈس واٹر کشمنر کے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ہی ورلڈ بینک ثالثی عدالت قائم کرسکتا ہے البتہ فی الحال مذاکرات معطل ہوئے ہیں انہیں ختم نہیں کیا گیا لہٰذا ورلڈ بینک عدالت قائم نہیں کرسکتا۔
مزید پڑھیں:سندھ طاس معاہدہ : پاکستان نے معاملہ ورلڈ بینک میں اٹھادیا
اس معاملے سے واقف ایک عہدے دار نے بتایا کہ ’پاکستانیوں کا یہ موقف ہے کہ وہ باہمی سطح پر ہر طرح کی کوشش کرچکے ہیں اور رواں برس انڈس واٹر کمشین بھی اسے متنازع قرار دے چکا ہے لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ ورلڈ بینک اپنا کردار ادا کرے‘۔
عہدے دار کے مطابق پاکستانی وفد نے ورلڈ بینک کے حکام کو بتایا کہ ’مذکورہ تین دریا پاکستان کی لائف لائن ہیں کیوں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘۔
ہفتے کے روز چین نے بھی ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کے سلسلے میں بھارت کے دریائے براہما پترا سے آکر ملنے والے معاون دریا کو روک دیا جس سے پاکستان کا کیس مزید مضبوط ہوگیا۔
واشنگٹن میں چین کے اس اقدام کو بھارت کے خلاف ایک انتباہ کے طور پر دیکھا جارہا ہے کہ وہ پانی کو بطور خارجہ پالیسی ہتھیار استعمال نہ کرے۔
یہ خبر 3 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی