صحافیوں نے اس موقع پر مقامی کمانڈرز اور فوجی ترجمان کی بریفنگ سننے کے علاوہ مقامی افراد سے بھی بات کی جنہوں نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ان علاقوں میں کسی طرح کی مشکوک سرگرمی یا سرجیکل اسٹرائیکس سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
اس موقع پر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ ’سرجیکل اسٹرائیک کا کوئی بھی نشان موجود نہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی دعووں میں کوئی صداقت نہیں‘۔
انہوں نے بھارت کو چیلنج کیا کہ وہ اپنے دعوے کو شفاف طریقے سے ثابت کرے اور دوسروں کو بھی اس دعوے پر تحقیق کرنے کی اجازت دے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان آرمی تو 28 اور 29 ستمبر کی درمیانی شب کنٹرول لائن پر سیز فائر کی ہونے والی خلاف ورزی کی تحقیقات میں اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کررہی ہے جبکہ صحافیوں کو بھی اس مقام پر لائی تاکہ وہ ہندوستانی دعووں کا اپنے طریقے سے پرکھ سکیں لیکن بھارت کیوں اپنے لوگوں کو سرجیکل اسٹرائیکس کے دعووں کی تحقیقات نہیں کرنے دے رہا؟
واضح رہے کہ اُڑی حملے کے بعد ہندوستانی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ نے کہا تھا کہ حملہ آوروں سے ملنے والے ہتھیاروں پر پاکستانی نشانات موجود ہیں تاہم ان کے ان دعووں کو انڈین میڈیا نے ایکسپوز کردیا تھا جس کے بعد حکومت نے فوج سے متعلق خبریں بغیر اجازت نشر نہ کرنے کے احکامات جاری کر دیے تھے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجودہ نے ہندوستان سے کئی سوالات بھی کیے اور کہا کہ : جن سرجیکل اسٹرائیکس کا دعویٰ کیا گیا ان کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں کہاں گئیں؟ سرجیکل اسٹرائیکس سے ہونے والا نقصان کیوں نظر نہیں آتا؟ اتنے دشوار گزار علاقے میں کیسے محض پانچ گھنٹوں کے اندر فوجی دستے آئے اور واپس چلے گئے جبکہ انہیں کسی مزاحمت کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا؟
یاد رہے کہ ہندوستان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے فوجیوں کی جانب سے کیے جانے والے سرجیکل اسٹرائیکس کی وجہ سے دہشت گردوں اور ان کی معاونت کی کوشش کرنے والوں کو شدید نقصان پہنچا۔
عاصم باجوہ نے کہا کہ ’سرحد پار سے کوئی بھی اس طرف نہیں آیا اور اس روز محض فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کنٹرول لائن کے ذریعے دراندازی کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی دہشت گردوں کو اس پار بھیجنا اس کی پالیسی ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہندوستانی وزیر اعظم کشمیر کے مسئلے پر پردہ ڈالنے کے لیے سیز فائر کی خلاف ورزی کو سرجیکل اسٹرائیک کا نام دے کر اپنے عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے خبردار کیا کہ مشرقی سرحد پر بھارت کے ساتھ کشیدگی بڑھنے سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوسکتی ہے جس میں 2 لاکھ سے زائد فوجی اہلکار حصہ لے رہے ہیں اور آپریشنز اپنے آخری مراحل میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ سے توجہ ہٹی تو یہ خطے کے امن و استحکام کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔
لاپتہ فوجی
لاپتہ ہندوستانی فوجی اہلکار چندو بابولال چوہان جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ پاکستان کی تحویل میں ہے، اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہندوستان نے اس معاملے پر ڈی جی ایم او اجلاس کی درخواست کی ہے۔
ہندوستان کا کہنا ہے کہ چوہان نادانستہ طور پر کنٹرول لائن کی دوسری جانب چلاگیا تھا اور اسے پاکستانی فوجیوں نے گرفتار کرلیا۔
چوہان کی پاکستان میں موجودگی کے حوالے سے پاک فوج کا موقف گزشتہ چند دنوں میں مختلف رہا ہے ، پہلے اس حوالے سے تردید کی گئی پھر یہ کہا گیا کہ اسے ڈھونڈا جارہا ہے۔
اب عاصم باجوہ کا یہ کہنا ہے کہ نادانستہ طور پر سرحد پار کرنے کا جب کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کی تصدیق اور تحقیقات کا باقاعدہ طریقہ کار ہوتا ہے جس پر عمل کیا گیا۔
تاہم فوجی ترجمان نے واضح طور پر اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ چوہان پاکستان کی تحویل میں ہے یا نہیں۔
کنٹرول لائن کے زیادہ تر علاقوں کے ذمہ دار فوج کے 23 ویں ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل چراغ حیدر نے کہا کہ سرجیکل اسٹرائیکس کا ہندوستانی دعویٰ بعید از قیاس ہے اور کسی ذمہ دار فوجی افسر سے اس طرح کے دعوے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
انہوں نے کہا کہ کنٹرول لائن پر سیکیورٹی اتنی سخت ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی حرکت بھی نوٹس میں آجاتی ہے لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ ہندوستانی فوجی سرحد پار کرکے آزاد کشمیر آئے اور پھر واپس چلے گئے۔
ہندوستانی دعویٰ جھوٹ کا پلندہ
آزاد کشمیر کے بلدیاتی کونسلر مرزا عبدالوحید نے باغ سر میں ڈان کو بتایا کہ 28 اور 29 ستمبر کی درمیانی شب دونوں جانب سے فائرنگ کے تبادلے کے سوا کچھ نہیں ہوا۔
باغ سر کے ایک اور رہائشی رفیع شہزاد نے بتایا کہ ہندوستان کا دعویٰ جھوٹ کا پلندہ ہے جبکہ ایک اور رہائشی محمد لیاقت کا بھی یہی موقف تھا۔
کنٹرول لائن پر بھارتی پوسٹ سے 2 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود مندول میں مقامی بینک کے ملازم نعمان کبیر نے بتایا کہ وہ حیران ہے کہ کس طرح ہندوستانی رہنما اپنی قوم کو بے وقوف بنارہے ہیں۔
سعودی عرب سے چھٹیوں پر آئے ہوئے شاہد محمود نے بتایا کہ اس علاقے میں کاروبار زندگی معمول کے مطابق جاری رہنا از خود ہندوستانی دعووں کا جواب ہے، بھارت کی دھمکیاں ہمیں ڈرا نہیں سکتیں۔
ایک مقامی شخص اکثیر احمد نے بتایا کہ اس رات شدید فائرنگ ہورہی تھی جس کی وجہ سے تمام لوگ جاگ گئے تھے۔
یہ خبر 2 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی