پاکستان

’عالمی مسابقت کی درجہ بندی میں پاکستان کی پوزیشن بہتر‘

پاکستان کی درجہ بندی 4 درجے بہتر ہوئی، ہندوستان 39 ویں پوزیشن کے ساتھ خطے میں سب سے آگے ہے،عالمی اقتصادی فورم کی رپورٹ

اسلام آباد: عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے عالمی مسابقتی رپورٹ (17-2016) جاری کردی گئی جس کے مطابق عالمی مسابقت کی درجہ بندی میں 4 درجہ بہتری کے بعد پاکستان 122 ویں نمبر پر آگیا۔

پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ملک میں کلاں اقتصادی اشاریے بہتر ہوئے ہیں۔

سوئٹزرلینڈ مسلسل 8 ویں سال مسابقت کی عالمی درجہ بندی میں پہلی پوزیشن پر براجمان ہوا ہے جبکہ سنگاپور دوسرے اور امریکا تیسرے نمبر پر ہے۔

عالمی اقتصادی فورم (ڈبلوی ای ایف) کی سالانہ رپورٹ میں 138 ممالک کے ان عناصر کا جائزہ لیا گیا جو قومی پیداوار میں اضافے اور استحکام کا موجب بنتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کرپشن کو پاکستان میں کاروبار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا جبکہ جرائم، چوری، شرح ٹیکس، سرمائے تک رسائی، حکومتی عدم استحکام اور فوجی بغاوتوں کو بھی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے عناصر کہا گیا۔

عالمی مسابقت کے 114 اشاریے میں سے پاکستان نے 54 اہم اشاریے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جبکہ 50 اشاریات ایسے ہیں جنمیں پاکستان اپنی سابقہ پوزیشن برقرار نہ رکھ سکا اور 10 اشاریات میں پاکستان گزشتہ برس کی پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔

ڈان کو حاصل ہونے والی رپورٹ کی کاپی کے مطابق ریاستی ستونوں کی بہتری کے اعتبار سے پاکستان 119 سے 111 ویں نمبر پر آگیا جبکہ انفرااسٹرکچر کے شعبے میں پاکستان ایک پوائنٹ بہتری کے بعد اس سال 116 ویں نمبر پر رہا۔

کلاں اقتصادی استحکام کے شعبے میں پاکستان 116 ویں نمبر پر آگیا جو 2015 میں 128 ویں نمبر پر تھا جبکہ قومی بچت پر معاشی پیش رفت کے حوالے سے بھی پاکستان کی درجہ بندی 115 سے بہتر ہوکر 107 ہوگئی۔

مجموعی قومی پیداوار میں حکومتی قرضوں کی شرح کے اعتبار سے 138 ممالک میں پاکستان کی درجہ بندی 95 رہی۔

پاکستان نے سب سے بڑی چھلانگ افراط زر کے شعبے میں لگائی اور 127 سے 93 ویں نمبر پر آگیا۔

رپورٹ میں پاکستان کی دیگر شعبوں میں کارکردگی کے حوالے سے بھی درجہ بندی جاری کی گئی جس کے مطابق صحت اور پرائمری ایجوکیشن میں پاکستان کی درجہ بندی 128، ہائر ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ میں 123، گڈز مارکیٹ میں 117، لیبر مارکیٹ میں 129، فنانشل مارکیٹ 107، تکنیکی مستعدی میں 119، مارکیٹ کے حجم میں 29 جبکہ اختراع پسندی میں 75 ویں نمبر پر رہا۔

البتہ جنوبی ایشیائی ممالک میں پاکستان اب بھی سب سے پیچھے ہے جبکہ ہندوستان اس درجہ بندی میں 39 ویں نمبر پر موجود ہے اور خطے میں سب سے آگے ہے، اس کے بعد سری لنکا 71 ویں، بھوٹان 97 ویں، نیپال 98 ویں اور بنگلہ دیش 106 ویں نمبر پر ہے۔

پاکستان کے حوالے سے رائے عامہ کو بہتر بنانے کے لیے عالمی اقتصادی فورم میشال پاکستان نامی تنظیم کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔

میشال پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عامر جہانگیر کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ پاکستان نے مختلف شعبوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے تاہم ڈیجیٹل اور سائبر ورلڈ میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے‘۔

عالمی اقتصادی فورم کی رپورٹ میں پاکستان کے سرکاری اداروں اور اہم انتظامی باڈیز کی کارکردگی کو بھی درجہ بندی کے ذریعے ظاہر کیا ہے جس کے مطابق انٹیلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کی درجہ بندی 109، عدلیہ کی آزادی 88، پولیس سروسز 118، اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریوینیوز 121، نیشنل ہائی وے اتھارٹی 77، پاکستان ریلوے 53، سول ایوی ایشن اتھارٹی 91، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی121، ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان 115، نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کشمین 97، مسابقتی کمیشن آف پاکستان 96، پاکستان کسٹمز 113، اسٹیٹ بینک آف پاکستان 101، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان 106 اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان 135 ویں نمبر پر ہے۔

سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی درجہ بندی 2014 میں 51 تھی جو اس سال تیزی سے نیچے آتے ہوئے 106 تک جاپہنچی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ترقی کے تمام مراحل میں معیشتوں کی کشادگی میں 10 سالہ زوال کی وجہ سے ملکوں کی آگے بڑھنے اور اختراعی صلاحیتوں کو نقصان پہنچا۔

عالمی اقتصادی فورم کے بانی اور ایگزیکٹو چیئرمین کلاوس شواب کا کہنا ہے کہ ’عالمی معیشت کی کشادگی میں مسلسل ہونے والی کمی مسابقتی عمل کو نقصان پہنچا رہی ہے اور قابل تسلسل اور جامع نمو کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے‘۔

دریں اثناء تھائی لینڈ کی مسابقتی درجہ بندی 2 پوائنٹس کمی کے بعد 34ویں نمبر پر آگئی جبکہ ملائیشیا ٹاپ ٹوئنٹی سے باہر ہوتے ہوئے 7 درجے تنزلی کے بعد 25 ویں نمبر پر آگیا۔

انڈونیشیا 4 درجے تنزلی کے بعد 41 ویں جبکہ فلپائن 10 درجے نیچے جانے کے بعد 57 ویں نمبر پر پہنچ گیا۔

یہ خبر 28 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی