سانحہ صفورا کے ملزمان نے سزائے موت چیلنج کردی
اسلام آباد: سانحہ صفورا گوٹھ اور سماجی کارکن سبین محمود قتل کیس میں فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے 5 دہشت گردوں نے اپنی سزا لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں چیلنج کردی۔
12 مئی کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آئی نے سخت گیر دہشت گردوں طاہر منہاس، سعد عزیز، اسد الرحمٰن، محمد اظہر عشرت اور حافظ ناصر احمد کی 9 مقدمات میں سزائے موت کی تصدیق کی تھی جن میں صفورا گوٹھ حملہ اور سبین محمود قتل کے الزامات بھی شامل تھے۔
ان مجرموں نے اپنی سزاؤں کے خلاف ملٹری کورٹ آف اپیلز میں بھی درخواست دائر کی تھی تاہم 20 اگست کو ان کی سزائیں برقرار رکھنے کا فیصلہ سامنے آیا۔
یہ بھی پڑھیں:سانحہ صفورا اور سبین محمود قتل کے مجرمان کی سزائے موت برقرار
اب لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی اپیل میں مجرمان نے موقف اختیار کیا ہے کہ انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
مجرموں کی جانب سے اپیل ایڈووکیٹ حشمت حبیب نے دائر کی جس میں کہا گیا ہے کہ پانچوں ملزمان قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مذکورہ دونوں کیسز میں گرفتاریوں کے اعلان سے کہیں پہلے ہی زیر حراست تھے۔
سزا یافتگان نے فوجی عدالت میں اپنے خلاف چلائے جانے والے مقدمے کے طریقہ کار پر بھی اعتراضات اٹھائے۔
درخواست کے مطابق ملٹری کے لیگل برانچ کے جج ایڈووکیٹ جنرل نے اپیل کی تیاری کے لیے مناسب وقت نہیں دیا اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہیں عدالتی کارروائی کی تفصیلی کاپی بھی فراہم نہیں کی گئی۔
اپیل میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ’وزیر اعلیٰ سندھ، وفاقی وزیر داخلہ اور آرمی چیف کی تعریف اس بات کا ثبوت ہے کہ ملزمان پہلے سے ہی زیر حراست تھے جبکہ پولیس نے 20 مئی 2015 کو ایف آئی آر درج کی اور دعویٰ کیا کہ انہیں پولیس مقابلے کے بعد گرفتار کیا گیا۔
مزید پڑھیں:سانحہ صفورا: 4 اعلیٰ تعلیم یافتہ ملزمان گرفتار
سزا پانے والے ایک نوجوان سعد عزیز کا دعویٰ ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہے اور اس کا ماضی میں کسی بھی طرح کی مجرمانہ سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں رہا جبکہ اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے اس کیس میں پھنسایا۔
استغاثہ کے مطابق منہاس نامی شخص 13 مئی 2015 کو ہونے والے صفورا گوٹھ حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا جس میں اسماعیلی برادری کے 47 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
وفاقی حکومت نے مارچ 2016 میں سانحہ صفورا اور سبین محمود قتل کیس کو فوجی عدالت منتقل کردیا تھا جن کا قیام 21 ویں ترمیم کے تحت عمل میں آیا تھا۔
تحقیقات کے مطابق صفورا حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ طاہر منہاس نے اسماعیلی کمیونٹی کے ارکان کو اس لیے قتل کیا تاکہ وہ شدت پسند تنظیم داعش کی قیادت کو متاثر کرسکے اور اس عالمی دہشت گرد تنظیم میں اہم مقام حاصل کرسکے۔
یہ بھی پڑھیں:'بڑے دہشت گرد حملوں میں تعلیم یافتہ عسکریت پسند ملوث'
تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ طاہر منہاس مقامی دہشت گردوں پر مشتمل اپنا نیٹ ورک بھی چلا رہا تھا، وہ طالبان کے باہمی اختلافات سے تنگ آچکا تھا اور داعش سے وابستہ ہونا چاہتا تھا۔
تحقیقات کے مطابق 2014 میں داعش نے اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا اور اس کے ترجمان ابو محمد العدانی نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں خراسان صوبے کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا اور فاٹا کی اورکزئی ایجنسی میں طالبان کے سابق امیر حافظ سعید خان کو امیر مقرر کیا گیا۔
منہاس نے حافظ سعید خان سے رابطہ کیا اور داعش کی اطاعت قبول کرلی، اسے کراچی میں داعش کا امیر بھی مقرر کردیا گیا۔
تحقیقات کے مطابق 2002 میں سعد عزیز بلوچستان سے ہوتے ہوئے 3 ماہ کی تربیت حاصل کرنے افغانستان گیا تھا، افغانستان میں اپنے قیام کے دوران اس نے ممکنہ طور پر اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، ابویحیٰ اور حمزہ المصری سے صوبہ ہلمند میں ملاقاتیں کیں۔
یہ خبر 25 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی