کیا آفریدی الوداعی میچ کے مستحق ہیں؟
حال ہی میں جب ایک صحافی سے ان فٹنس کی فٹنس دریافت کی انہوں نے روایتی اکھڑ مزاج میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'الحمدُللہ، تم جیسے دس بندے میں ابھی بھی سنبھال سکتا ہوں'۔
اسی انٹرویو میں انہوں نے دوبارہ پاکستان کی نمائندگی کی خواہش بھی ظاہر کی۔
چند میڈیا رپورٹس کے مطابق آفریدی چیف سلیکٹر انضمام الحق سے رابطے میں تھے اور ویسٹ انڈیز کے خلاف متحدہ عرب امارات میں جاری سیریز میں میچ کھیل کر کرکٹ کو الوداع کہنا چاہتے تھے تاہم فی الحال ان کی خواہش کو مسترد کردیا گیا ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں وریندر سہواگ نے ٹوئٹ کی کہ میں تمام طرز کی انٹرنیشنل کرکٹ اور انڈین پریمیئر لیگ سے ریٹائر ہوتا ہوں'۔
چند لوگوں کیلئے ایک یہ ایک حیران کن اعلان تھا کیونکہ ان کی عمر 37 سال تھی جبکہ انہوں نے اپنا آخری انٹرنیشنل میچ 2013 میں کھیلا تھا۔
تاہم ٹوئنٹی 20 ماسٹرز چیمپینز لیگ کے تناظر میں سہواگ ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ اس میں عالمی کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کو شرکت کی اجازت نہیں تھی۔
جذبات سے مغلوب شاہد آفریدی نے سوال کیا کہ کیا ملک کی 12 سے 13 سال تک خدمت کرنے والا ایک الوداعی میچ کا بھی مستحق نہیں؟۔اسی طرح کا سوال ویسٹ انڈیز کے شیونارائن چندرپال نے بھی اپنے بورڈ سے پوچھا تھا۔
چندرپال، کوچ فل سمنز اور چیف سلیکٹر کے درمیان ہونے والا ای میل کا تبادلے اس تلخ کہانی کی عکاسی کرتا ہے۔
جب چندرمال کو فارم کی کمی کے سبب ٹیم سے باہر نکالنے کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے عرض کی کہ 'آسٹریلین سیریز کے ساتھ کیریئر کا اختتام کی درخواست کر کے میں کچھ زیادہ نہیں مانگ رہا۔ اس سے مجھے موقع ملے گا کہ میں ہوم گراؤنڈ پر اپنے سپورٹرز کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ویسٹ انڈین بورڈ کو موقع فراہم رکنا چاہتا ہوں کہ وہ میری خدمات پر مجھے اعزاز سے بخش سکیں۔ مجھے ریٹائرمنٹ پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم ان کی اس درخواست پر بھی غور نہیں کیا گیا تھا۔
اس کو دیکھیں اور اس کے مقابلے میں اسٹیو وا کو آسٹریلیا کی جانب سے 04-2003 میں دیے گئے خراج تحسین کو دیکھیں۔ بارڈر گواسکرسیریز کی اہمیت ایک شخص کی موجودگی اور اس کی رخصت کی وجہ سے کم ہو گئی تھی۔