بانی متحدہ کا آڈیو پیغام اور ’لیاقت آباد کی بس کا ہارن‘
کراچی: سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کے مبینہ آڈیو بیان کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہوگئے جبکہ متحدہ کے ارکان اسمبلی کی جانب سے بھی اس پر کوئی سنجیدہ رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا جن کا کہنا ہے کہ وہ اب الطاف حسین کو اپنا قائد نہیں مانتے۔
اس آڈیو بیان میں بظاہر بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی جانب سے ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ استعفے دیں اور عوام سے اپنے بل بوتے پر دوبارہ مینڈیٹ حاصل کریں۔
تاہم اگست 2015 کے برعکس جب الطاف حسین کی ایک کال پر ایم کیو ایم کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ سے مستعفی ہوگئے تھے اس بار کسی بھی منتخب رکن اسمبلی نے اپنا استعفیٰ جمع نہیں کرایا۔
یہ بھی پڑھیں:متحدہ اراکین اسمبلی کا استعفے نہ دینے کا فیصلہ
2 منٹ 26 سیکنڈز دورانیے کی یہ آڈیو کلپ لندن میں موجود ایم کیو ایم رہنماؤں کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی تاہم اس آڈیو پر کی جانے والی تنقید کی وجہ سے ایم کیو ایم پاکستان اور لندن میں تنازعات مزید گہرے ہوگئے۔
ایم کیو ایم کی رکن اسمبلی ارم عظیم فاروقی نے آڈیو کلپ کی صداقت پر سوال اٹھاتے ہوئے ٹوئیٹ کیا کہ ’جنہوں نے الطاف بھائی کو سنا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کی آواز نہیں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مصطفیٰ عزیز آبادی سے کہیں کہ اگر میں غلط کہہ رہی ہوں تو وہ کیوں ابھی اور اسی وقت الطاف بھائی کو اسکائپ پر نہیں لاتے‘۔
ارم فاروقی نے نشاندہی کی کہ ’پس منظر میں گاڑیوں کے ہارن کی آوازیں آرہی ہیں جبکہ لندن میں زور زور سے ہارن بجانا جرم ہے، لیاقت آباد کی بس کا ہارن تو چپ کرادو عزیز آبادی‘۔
مزید پڑھیں:ندیم نصرت،واسع جلیل ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی سے خارج
ارم فاروقی کے ٹوئیٹ پر لندن میں موجود واسع جلیل کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا اور انہوں نے آڈیو کلپ کے درست ہونے پر اصرار کرتے ہوئے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ ’ہنسی آرہی ہے ان پر جو الطاف بھائی کے آڈیو پیغام کے جعلی ہونے کا پروپیگنڈہ کررہے ہیں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پروپیگنڈہ کرنے والے اس وقت شرمندہ ہوں گے جب وڈیو پیغام سامنے آئے گا، ایسا ہی پروپیگنڈہ مارچ میں بھی کیا گیا تھا، یہ آڈیو پیغام 100 فیصد الطاف بھائی کا ہی ہے اس کے جعلی ہونے کا پروپیگنڈہ کرنے والوں کو شرم آنی چاہیے‘۔
واضح رہے کہ 22 اگست کو الطاف حسین کی جانب سے کی جانے والی اشتعال انگیز تقریر کے بعد سے ایم کیو ایم کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم پاکستان کی ہدایات پر عمل پیرا ہیں۔
لندن قیادت کی جانب سے شدید دباؤ کے باوجود پاکستان سے باہر موجود ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی و سینیٹ کی جانب سے کوئی استعفیٰ سامنے نہیں آیا۔
یہ بھی پڑھیں:الطاف حسین کے خلاف غداری کے مقدمے کیلئے قرارداد منظور
آڈیو پیغام میں کراچی اور حیدر آباد کے میئر، ڈپٹی میئرز، میرپور خاص میونسپل کمیٹی کے چیئرمین اور دیگر منتخب بلدیاتی نمائندوں سے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔
آڈیو پیغام میں مبینہ طور پر الطاف حسین نے کہا کہ انہوں نے پارٹی کو متحد رکھنے کی خاطر فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم کی حمایت کی تھی لیکن انہیں اس سازش کا علم نہیں تھا جس کے تحت خود ان ہی کا نام پارٹی کے آئین سے نکال دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اقدام بالکل غیر آئینی اور تحکمانہ ہے، میں اس فیصلے کو نہیں مانتا لہٰذا میں تمام اختیارات کنوینر ندیم نصرت کو دیتا ہوں اور تمام ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹرز سے کہتا ہوں کہ سب جانتے ہیں کہ انہوں نے ووٹ کس کے نام پر لیا لہٰذا جب انہوں نے الطاف حسین کے نام پر ووٹ لیے تو اب انہیں دوبارہ الیکشن لڑنا چاہیے اور فوری طور پر اپنے استعفے جمع کرادینے چاہئیں‘۔
آڈیو بیان میں کارکنوں سے متحد اور ثابت قدم کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ اگر کسی کو انتہائی سخت مشکلات کا سامنا ہے تو وہ روپوش ہوجائے یا ملک چھوڑ دے نہ کہ شہیدوں کے خون سے غداری کرے جیسا کہ بہت سے لوگوں نے کیا۔
مزید پڑھیں:الطاف حسین سے قطع تعلق کا اعلان
قبل ازیں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ’ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ نے ان لوگوں سے مینڈیٹ لیا جنہوں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے اور ہم کسی کی خواہش اور تسلی کے لیے استعفے نہیں دیں گے‘۔
لندن میں موجود سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ ’الطاف حسین کا آڈیو بیان صرف حق پرستوں کے لیے اور پارٹی کے وفاداروں کے لیے تھا اور ہمیں بڑے پیمانے پر استعفوں کی توقع نہیں تاہم بعض ارکان اسمبلی موقع ملنے پر ضرور اپنے استعفوں کا اعلان کریں گے‘۔
واضح رہے کہ بانی ایم کیو ایم الطاف حسین نے گذشتہ ماہ 22 اگست کو کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے کارکنوں سے خطاب میں پاکستان مخالف نعرے لگوائے تھے، جس پر کارکنوں نے مشتعل ہوکر نجی نیوز چینل اے آر وائی نیوز کے دفتر پر حملہ کردیا تھا۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اورآنسو گیس کا استعمال کیا، اس موقع پر فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوا تھا۔
بعدازاں پریس کلب پر میڈیا سے گفتگو کے لیے آنے والے ایم کیو ایم رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو رینجرز نے گرفتار کرلیا تھا جبکہ ڈاکٹر عامر لیاقت کو ان کے دفتر سے گرفتار کیا گیا،ان رہنماؤں کو اگلے دن رہا کیا گیا۔
دوسری جانب ان واقعات کے بعد رینجرز اور پولیس نے شہر بھر میں کارروائیاں کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر نائن زیرو سمیت متعدد سیکٹرز اور یونٹس بند کرنے کے ساتھ پارٹی ویب سائٹ کو بھی بند کردیا تھا۔
اس کے اگلے روز یعنی 23 اگست کو دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی کے تمام فیصلے پاکستان میں کرنے کا اعلانکیا، بعدازاں پارٹی کی جانب سے اپنے بانی اور قائد سے قطع تعلقی کا بھی اعلان کردیا گیا اور ترمیم کرکے تحریک کے بانی الطاف حسین کا نام پارٹی کے آئین اور جھنڈے سے بھی نکال دیا گیا، اسی روز سے ڈاکٹر فاروق ستار نے متحدہ قومی موومنٹ کی سربراہی سنبھال لی تھی۔
یہ خبر 24 ستمبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی