دیوسائی میں قدرت کی موسیقی اور صدائے بلبل
شہنشاہِ ہند جلال الدین اکبر نے تان سین کو خلعتِ شاہی عطا کی۔ تان سین کورنش بجا لایا اور دبے پاؤں پیچھے ہٹنے لگا۔ اکبر نے فرمایا "تجھے خدا نے ایسے سُر عطا کیے جو سننے والوں کے دل و دماغ کو کسی اور دنیا میں لے جاتے ہیں، میں تختِ شاہی بھول کر ایک تخیلاتی چراہ گاہ کی سیر کو نکل جاتا ہوں، اے تان سین! کیا دنیا میں کوئی تجھ سے بھی زیادہ سُریلا ہو گا؟"
تان سین نے ہاتھ باندھ کر عرض کی، "جہاں پناہ! میں اپنے استاد سوامی ہری داس کے آگے بونا ہوں۔ سوامی ہری داس نے اپنے خزانوں سے مجھے کچھ سُر عطا کیے ہیں۔ ان کے آگے میری کوئی حیثیت نہیں۔" شہنشاہِ ہند یہ سُن کر چونکا اور شدید خواہش ظاہر کی کہ سوامی ہری داس کو دربار میں بلایا جائے۔
تان سین پر یہ مشکل آن پڑی کہ سوامی ہری داس، جو بادشاہوں اور درباروں سے دور بھاگتا ہے، اس کو یہاں کیسے بلایا جائے۔ کچھ لمحے غور و فکر کے بعد تان سین نے ہاتھ باندھ کر عرض کی، "حضور سوامی ہری داس کو سننے ان کے آشرم میں ہی جانا پڑے گا۔ وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں، اپنی مرضی سے سُر لگاتے اور گاتے ہیں، بلانے پر کہیں نہیں جاتے۔" اکبر جو سوامی کے سُر سننے کو بے چین ہو رہا تھا اس نے سفر کا حکم دیا اور تان سین کو ساتھ لیے ہمالیہ کے پہاڑوں کو چل نکلا جہاں سوامی ہری داس کا آشرم تھا۔
آشرم پہنچ کر کئی دن بادشاہ اکبر انتظار کرتا رہا مگر سوامی ہری داس نے سُر نہ چھیڑے۔ یہ صورتحال دیکھ کر تان سین کو ایک ترکیب سوجھی۔ ایک دن اس نے محفل میں سُر چھیڑے اور جان بوجھ کر ایک سُر غلط لگا دیا۔ سوامی ہری داس فوراً بول پڑا "اے تان سین یہ تجھے کیا ہو گیا؟ میرا شاگرد ہو کر تم نے ایسی فاش غلطی کیسے کر دی؟"
تان سین کی غلطی درست کرنے کے لیے ہری داس نے خود سُر الاپنے شروع کر دیے اور جب اپنا فن پیش کر چکا تو اس نے دیکھا کہ محفل میں اکبر سمیت سارے لوگوں کی زبانیں گُنگ ہو چکی ہیں۔ بادشاہ اکبر گویا ہوا کہ تان سین بلاشبہ تو سچ کہتا تھا سوامی ہری داس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی سُریلا نہیں۔ تان سین نے عرض کی کہ "عالم پناہ! اس کی وجہ یہ ہے کہ سوامی ہری داس تب گاتے ہیں جب ان کا مَن چاہے، یہ کسی حکم کے پابند نہیں۔ اس کے برعکس میں آپ کے حکم کا غلام ہوں، تب گاتا ہوں جب آپ کہتے ہیں۔"
دیوسائی میں جابجا کھلے شوخ رنگ جنگلی پھولوں کے بیچ ایک چمکدار روشن دن میں بیٹھے مجھے لگنے لگا تھا کہ سوامی ہری داس یہیں کہیں آس پاس موجود ہے اور اپنے سر کی لے تیز کیے جا رہا ہے۔ اس دن تیز ہوائیں چل رہی تھیں جو پھولوں میں سرسراہٹ پیدا کرتیں۔ شیوسر جھیل میں ارتعاش پیدا ہوتا تو اس کی لہریں اپنے کناروں اور میرے کانوں سے آ کر ٹکراتیں۔