وزیراعظم کی تقریر پر ہندوستان کی تنقید، پاکستان کا بھرپور ردعمل
نیویارک: اقوام متحدہ میں وزیراعظم نواز شریف کے خطاب میں مسئلہ کمشیر کو اجاگر کرنے پر ہندوستان نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو 'دہشت گرد ریاست' قرار دے دیا، تاہم پاکستان نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کردیا۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ 'پاکستان پڑوسی ملک ہندوستان کے ساتھ امن اور اچھے تعلقات کا خواہاں ہے، لیکن دونوں ممالک کے درمیان امن مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔'
وزیراعظم نواز شریف نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کشمیر میں ماورائے عدالت قتل عام کی تحقیقات کے لیے عالمی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا تھا اور اقوام متحدہ پر زور دیا تھا کہ وہ کشمیر کو غیر فوجی علاقہ بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے، سلامتی کونسل اپنی فیصلوں پر عملدرآمد یقینی بنائے، بے گناہ کشمیریوں کو رہا کیا جائے اور کرفیو اٹھایا جائے۔
مزید پڑھیں:’مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پاکستان،ہندوستان میں امن ممکن نہیں‘
تاہم وزیراعظم کے خطاب کے بعد اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل مشن کی فرسٹ سیکریٹری اینام گمبھیر نے پاکستان پر 'دہشت گردی کی مدد' کرنے کا الزام عائد کردیا۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اینام گمبھیر کا کہنا تھا، 'ہندوستان پاکستان کو ایک 'دہشت گرد ریاست' کے طور پر دیکھتا ہے، جو غیر ملکی امداد کو پڑوسی ممالک کے خلاف پراکسی جنگ لڑنے اور دہشت گرد گروپوں کی تربیت، مالی مدد اور حمایت کے لیے استعمال کرتا ہے۔'
انھوں نے الزام عائد کیا کہ 'انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی دہشت گردی ہے اور جب اسے ایک ریاست کی پالیسی کے طور پر استعمال کیا جائے تو یہ ایک جنگی جرم بن جاتا ہے، آج میرا ملک اور دیگر پڑوسی جو کچھ برداشت کر رہے ہیں، وہ پاکستان کی دہشت گردی کی معاونت کی طویل پالیسی کا نتیجہ ہے، جس کے اثرات پورے خطے میں پھیل گئے ہیں'۔
تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کے ایک ڈائریکٹر جنرل محمد فیصل نے اینام گمبھیر کی جانب سے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر اور دیگر جگہوں پر دہشت گردی کو 'اسپانسر' کرنے کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں اٹھنے والی جدوجہد اچانک اور فطری تھی۔'
193 اراکین پر مشتمل جنرل اسمبلی میں اینام گمبھیر کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے محمد فیصل کا کہنا تھا کہ 'ہندوستانی حکومت نے وزیراعظم پاکستان کے بیان پر تنقید کی ہے، جو جموں و کشمیر کے عوام کے جذبات اور امنگوں کا ترجمان تھا، جو گذشتہ 70 سالوں سے گولیوں، مظالم اور ہندوستان کے غیر قانونی تسلط کو برداشت کر رہے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں:نواز-بان کی مون ملاقات: کشمیر میں ہندوستانی مظالم کے ثبوت پیش
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'پاکستان کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور ہندوستانی تسلط سے آزادی کے لیے کشمیریوں کی مکمل سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔'
محمد فیصل نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ 'برہان وانی کے سفاکانہ قتل کے بعد کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری عوام ہندوستانی تسلط سے آزادی چاہتے ہیں۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'تاہم کمشیریوں کے پر امن احتجاج اور مظاہروں پر بھی گولیاں چلائی گئیں، جس کے نتیجے میں کئی لوگ بینائی سے محروم اور شدید زخمی بھی ہوئے'۔
محمد فیصل کا کہنا تھا کہ 'کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے دیا گیا تھا، جسے 7 عشروں بعد بھی پورا نہیں کیا جاسکا، لیکن ان کے ارادے اور عزم ابھی بھی کمزور نہیں پڑا، درحقیقت یہ عزم کشمیریوں کے دل میں زندہ و جاوید ہے۔'
پاکستانی سفارت کار کا مزید کہنا تھا کہ 'کشمیری عوام عالمی برادری خاص کر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اراکین کی جانب دیکھتے ہیں کہ انھیں ایک آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے انعقاد سے اپنے مستقبل کے فیصلے کا موقع فراہم کیا جائے، جو ان کا جمہوری اور قانونی حق ہے۔'
محمد فیصل کا کہنا تھا کہ 'ہندوستانی وفد کی جانب سے استعمال کیے گئے الفاظ اس حقیقیت کو جھٹلا نہیں سکتے۔'
واضح رہے کہ 8 جولائی کو حریت کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں اور ہندوستانی فورسز کی فائرنگ سے 100 سے زائد کشمیری ہلاک اور 10 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔
وادی بھر میں 73 روز سے کرفیو بھی نافذ ہے جبکہ ہندوستانی فورسز کی جانب سے استعمال کیے جانے والی پیلیٹ گنز کی وجہ سے سیکڑوں کشمیری نوجوان بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔