پاکستان

ذہنی معذور شخص کی پھانسی موخر

امداد علی کو 20 ستمبر کو پھانسی دی جانی چاہیے تھی، جسے سپریم کورٹ نے ایک ہفتے کے لیے موخر کردیا، جسٹس پروجیکٹ پاکستان

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے احتجاج کے بعد ڈاکٹروں کی جانب سے ذہنی معذور قرار دیئے جانے والے شخص امداد علی کی سزائے موت ایک ہفتے کے لیے روکنے کے احکامات جاری کردیئے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) کا کہنا تھا کہ امداد علی کو منگل 20 ستمبر کو پھانسی دی جانی چاہیے تھی، جسے سپریم کورٹ نے ایک ہفتے کے لیے موخر کردیا'۔

جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) 50 سالہ امداد علی کی پھانسی رکوانے کے لیے سرگرم عمل ہے، جنھیں 2002 میں ایک مذہبی رہنما کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم تنظیم کا کہنا ہے کہ 'امداد علی ذہنی طور پر معذور اور 'پیرانائیڈ شیزوفرینیا' کا شکار ہے اور کئی سالوں سے اس کا مناسب علاج نہیں کروایا گیا'، لہذا پاکستان کو شیزوفرینیا کے شکار ایک ذہنی معذور شخص کو سزائے موت نہیں دینی چاہیے۔

مزید پڑھیں:ذہنی معذور شخص کی پھانسی کے خلاف احتجاج

تنظیم کے مطابق انھوں نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، جس نے گذشتہ ماہ ان اپیلوں کو مسترد کردیا تھا کہ امداد علی کو ذہنی بیماری کے باعث پھانسی نہیں دی جاسکتی۔

جے پی پی کے مطابق امداد علی کی طبی حالت کو دیکھا جانا چاہیے اور ان حالات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جن کی وجہ سے ان کی ذہنی حالت خراب ہوئی۔

واضح رہے کہ امداد علی کو رواں ماہ 20 ستمبر کو پھانسی دی جانی تھی۔

جے پی پی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارا بلال کا کہنا تھا کہ 'اگر پاکستان نے ایک ذہنی معذور شخص کو پھانسی دی تو یہ اس کی جانب سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا'۔

سارا بلال کا مزید کہنا تھا کہ ' یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایک ذہنی معذور شخص کی پھانسی ایک سنگین جرم بن جائے گی اور جیسا کہ کنونشن آن رائٹس آف پرسن وِد ڈس ایبیلیٹیز (سی پی آر ڈی)، جس کی پاکستان نے بھی 2011 میں توثیق کی تھی، معذور افراد کو 'عزت و وقار' دینے کی ضمانت دیتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: معذور عبد الباسط کی پھانسی موخر

یاد رہے کہ اس سے قبل گذشتہ برس نومبر میں بھی 43 سالہ معذور قیدی عبد الباسط کی سزائے موت پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق عبد الباسط فیصل آباد سینٹرل جیل میں غیر انسانی حالات کی وجہ سے 2010 میں معذور ہو گئے تھے۔

انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ ٹی بی کی تشخیص کے باوجود عبد الباسط کو مناسب طبی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے ان کی ریڑھ کی ہڈی شدید متاثر ہوئی۔

پاکستان کی جانب سے سزائے موت پر عمل درآمد کو انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:معذور قیدی کی سزائے موت روکنے کی اپیل

خیال رہے کہ پاکستان نے گزشتہ برس 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پھانسی پر عائد غیر اعلانیہ پابندی ختم کی تھی۔

پاکستان میں 6 سال تک پھانسیوں پر غیر اعلانیہ پابندی عائد تھی تاہم سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت پابندی پر خاتمے کے بعد ابتداء میں دہشت گردی میں ملوث افراد کو پھانسیاں دی گئی تھیں، تاہم بعد میں مارچ 2015 سے ان افراد کی سزائے موت پر بھی عمل درآمد کیا جانے لگا جو کہ دیگر جرائم میں ملوث تھے۔

رپورٹس کے مطابق دسمبر 2014 کے بعد سے اب تک 400 سے زائد افراد کو سزائے موت دی جاچکی ہے۔