دنیا

کشمیر میں ظلم و بربریت کا سلسلہ فوری بند کیا جائے،او آئی سی

اسلامی تعاون تنظیم کےرابطہ گروپ کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

نیویارک: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رابطہ گروپ کا علیحدہ اجلاس ہوا جس میں کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کشمیریوں پر ظلم و بربریت کا سلسلہ فوری طور پر بند کرے۔

جموں و کشمیر کی صورتحال پر ہونے والے رابطہ گروپ کے اجلاس کی سربراہی او آئی سی کے سیکریٹری جنرل ایاد امین مدنی نے کی جبکہ اجلاس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز، ترکی اور آذربائیجان کے وزرائے خارجہ، نائیجر اور سعودی عرب کے سینئر نمائندوں، کشمیری عوام کے حقیقی نمائندوں اور آزاد جموں و کشمیر کے صدر مسعود خان بھی شریک تھے۔

اس موقع پر او آئی سی کے سیکریٹری جنرل نے ہندوستان سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر کشمیریوں پر ظلم و بربریت کا سلسلہ بند کرے جبکہ کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کے حل پر زور دیا۔

یہ بھی پڑھیں:کشمیریوں کے قتل پر بان کی مون کی تشویش

انہوں نے کہا کہ انڈین سیکیورٹی فورسز پیلیٹ گنز کا استعمال کرکے کشمیریوں سے ان کی بینائی تو چھین سکتی ہے لیکن کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نہیں دبایا جاسکتا۔

اپنے بیان میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ نوجوان حریت پسند کمانڈر برہان وانی کی انڈین فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ہندوستان کی جانب سے جموں و کشمیر میں ظلم و ستم اور سفاکیت کی بدترین مثال پیش کی گئی جس کی وجہ سے 100 سے زائد کشمیری ہلاک اور 10 ہزار کے قریب کشمیری زخمی ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستانی فورسز کی جانب سے چلائی جانے والی پیلیٹ گنز کی وجہ سے 150 سے زائد کشمیری مکمل طور پر جبکہ 350 جزوی طور پر بینائی سے محروم ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ جبر و تشدد سے کشمیری عوام کے جذبے اور حق خود ارادیت کے لیے ان کی جائز جدوجہد کو دبایا نہیں جاسکتا۔

اس موقع پر سرتاج عزیز کی درخواست پر رابطہ گروپ کے ارکان نے ہندوستانی جارحیت میں ہلاک ہونے والے کشمیریوں کے لیے فاتحہ خوانی بھی کی۔

مشیر خارجہ نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل جنوبی ایشیا میں دیر پا امن اور استحکام کے لیے ناگزیر ہے تاہم افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان نے اس مسئلے کے حل کے لیے با معنی مذاکرات کی پاکستانی پیشکشوں کا مثبت جواب نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیں:ہندوستان کا مسئلہ کشمیر پر مذاکرات سے انکار

اس موقع پر آذربائیجان اور ترکی کے وزرائے خارجہ نے بھی کشمیر کی موجودہ صورتحال اور وہاں ہونےوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہارکیا۔

ترک وزیر خارجہ نے حالیہ واقعات کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کے جلد از جلد حل کی ضروت پر زور دیا اور کہا کہ اس مسئلے کا حل جنوبی ایشیا میں امن اور ترقی لانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہاں ہونے والے انسانیت سوز مظالم اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ عالمی برادری اس جانب توجہ دے۔

آذربائیجان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ او آئی سی کو چاہیے کہ وہ کشمیر میں ہندوستانی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کے لیے نئے طریقے اپنائے اور کشمیر کے مسلمانوں کی مدد کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔

اس حوالے سے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق سے کشمیر میں فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بھیجنے کے مطالبے کی تجویز کی بھی حمایت کی گئی۔

نائیجر کے حکومتی نمائندے نے کہا کہ کئی ملکوں کی جانب سے ہندوستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کشمیر میں تحمل و برداشت کی پالیسی اپنائے لیکن اس کے برعکس وہاں حالات مزید خراب ہوگئے۔

مزید پڑھیں:ہندوستان نہتے کشمیریوں پر مظالم بند کرے، پاکستان

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری اس طرح کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتی ساتھ ہی انہوں نے او آئی سی پر زور دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کے لیے عالمی برادری کو متحرک کرنے کا سلسلہ جاری رکھے۔

اجلاس میں شریک ’کشمیری عوام کے حقیقی نمائندگان‘ نے شرکاء کو کشمیر کی صورتحال خاص طور پر 8 جولائی کو برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے ڈھائے جانے والے مظالم سے آگاہ کیا۔

آزاد جموں و کشمیر کے صدر مسعود خان ے بھی کشمیر میں ہندوستانی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے تفصیلی جائزہ پیش کیا۔

نمائندگان نے او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کو یادداشت بھی پیش کی جبکہ رابطہ گروپ کے ارکان نے کشمیری عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کیا اور عالمی سطح پر کشمیریوں کے لیے آواز اٹھاتے رہنے کا بھی عزم ظاہر کیا۔

اس اجلاس کے سامنے آنے والی تجاویز کو قلم بند کرلیا گیا ہے جسے ضروری کارروائی کے لیے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل میں پیش کیا جائے گا۔