پاکستان

دو سرحدوں کے درمیان ایک انوکھی پریم کہانی

اکبر علی اور زرینہ گاؤں کے سربراہ کے خوف سے سرحد عبور کرکے ہندوستان چلے گئے لیکن کہانی کا انجام مختلف ہوا ۔

ہم زمین پر سرحدوں کے نام پر کتنی ہی لکیریں کیوں نہ  کھینچیں، یہ دیواریں دلوں پر نہیں بنائی جاسکتیں۔ اور محبت اپنا رستہ ڈھونڈ ہی لیتی ہے اور یہ بھی ایک پریم کہانی ہے لیکن اس کا وہ انجام نہیں ہوسکا جس کی امید کی جارہی تھی ۔

ایک نوجوان پاکستانی جوڑے نے آنکھوں میں پیار اور امید کے دیپ جلائے پاکستان عبور کرکے ہندوستان میں قدم تو رکھا لیکن اب ان دونوں کو پاکستانی رینجرز کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اس ماہ کے آغازمیں اکبر علی اور زرینہ نے ہاتھوں میں ہاتھ تھامے پاک و ہند سرحد پر بارڈر آؤٹ پوسٹ 1106 میں ایک کھلے مقام سے گزر کر ہندوستان میں قدم رکھا۔

رن آف کچھ کے علاقے میں سرحدی چوکیوں کو نام کے بجائے نمبروں سے پکارا جاتا ہے کیونکہ یہاں کی نمک ذدہ سرزمین پر ہندوستانی حدود میں کوئی نہیں بستا اور بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے اہلکاروں کے علاوہ یہاں کوئی نہیں رہتا ۔

' انہوں نے کھسک کر اندر داخل ہونے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنی بلند ترین آواز میں چیخ کر بارڈر سیکیورٹی فورس کے گارڈز کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی،' ایک بی ایس ایف اہلکار نے بتایا۔ بی ایس ایف والے انہیں اپنے ساتھ لے گئے، دیگر انٹیلیجنس ایجنسیوں کے افراد نے بھی گھنٹوں ان سے سوالات کئے ۔ معلوم ہوا کہ یہ ایک پیار بھری کہانی ہے ناکہ جاسوسی اور در اندازی کا کوئی معاملہ۔

اٹھائیس سالہ اکبر علی اور بیس سالہ زرینہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن ہندوستانی بارڈر سے دو کلومیٹر دور گاؤں تھور، کا سربراہ زبردستی زرینہ کی شادی اپنے بیٹے سے کرانا چاہتا تھا۔ اکبر علی نے اس میں مزاحمت کی اور اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

پھر انہوں نے وہاں سے فرار ہوکر، باڑ عبور کرکے انڈیا جانے کا فیصلہ کیا۔ ' انہوں نے کہا کہ وہ پراعتماد ہیں کہ انہیں انڈیا میں انصاف مل جائے گا۔ اور اگر انہیں واپس کردیا گیا تو ( پاکستان میں) انہیں قتل کردیا جائے گا،' ایک ہندوستانی تفتیشی افسر نے بتایا۔

مقامی افسروں نے اپنے ماتحت اہلکاروں کو فوری اس واقعے کے بارے میں بتایا اور ان سے فیصلہ مانگا۔

لیکن اس پوری کہانی میں بی ایس ایف بہت معمولی کردار ادا کرسکتی تھی ۔

فیصلہ یہ ہوا کہ آیا انہیں مقامی پولیس کے حوالے کردیا جائے جہاں ان پر غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کے الزام میں رپورٹ درج ہو اور جیل کاٹنے کے بعد انہیں دوبارہ پاکستان بھیج دیا جائے۔ یا دوسرا آپشن یہ تھا کہ پاکستانی رینجرز کے مقامی کمانڈر سے ایک فلیگ میٹنگ کرکے انہیں دوبارہ پاکستان کے حوالے کردیا جائے۔ چونکہ بی ایس ایف اپنی طرفسے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی تھی اس لئے دوسرا آپشن منتخب کیا گیا ۔

اکبر کے بیان کے عین مطابق گاؤں کا مکھیا ایک با اثر آدمی ہے اور پاکستانی رینجرز بھی اس کی تلاش میں ہے۔ پاکستانی رینجرز پانچ منٹ کی فلیگ میٹنگ کے بعد جوڑے کو اپنے ساتھ لے گئی ۔' ہمیں نہیں معلوم کہ وہ اب بھی زندہ ہیں،' ایک بی ایس ایف افسر نے کہا۔

بی ایس ایف گجرات سیکٹر کے انسپیکٹر جنرل اے کے سنہا نے کہا کہ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ پاکستانی رینجرز اس سات سالہ بچی، پوجا میگھوال کی واپسی میں کیا تعاون کریں گے جو غلطی سے جیسلمیر، راجستھان سے پاکستان چلی گئی تھی۔

بشکریہ ہندوستان ٹائمز