دنیا

نائن الیون حملوں کو 15 برس بیت گئے

11 ستمبر 2001 کو ہونے والے ان حملوں کے اثرات اب بھی عالمی منظر نامے پر دکھائی دیتے ہیں۔

واشنگٹن: امریکا کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرحملے کے 15 سال مکمل ہوگئے تاہم اس حملے کے اثرات عالمی منظر نامے پر اب بھی دکھائی دیتے ہیں۔

امریکی صدر براک اوباما نے قوم سے ریڈیو خطاب میں اس حملے میں ہلاک ہونےوالوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ہم حملے کے متاثرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اپنے خطاب میں اوباما کا کہنا تھا کہ ’نائن الیون حملوں سے امریکیوں کو یہ بات یاد آنی چاہیے کہ باہمی تفریق کا کیا نتیجہ نکلتا ہے، ہم ان طاقتوں کے سامنے نہیں جھک سکتے جو ہمیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم رنگ، نسل، مذہب سے بالا تر ہوکر ہر انسان کو برابری کی بنیاد پر اس کا حق دیتے ہیں، ان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور یہی بات امریکا کو ایک عظیم ملک بناتی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں:’امریکا نے 9/11 کے بعد ایٹمی حملے پر غور کیا تھا‘

نائن الیون کی 15 ہویں برسی کے موقع پر امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملوں کی یاد گار ’زیرو پوائنٹ‘ پر خصوصی تقاریب کا بھی انعقاد کیا گیا۔

تقریب میں حملے میں ہلاک ہونے والوں کے نام پکارے گئے اور ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی جبکہ لوگوں نے ہلاک ہونے والوں کی یادگار پر پھول رکھے۔

واضح رہے کہ 11 ستمبر 2001 کا سورج امریکا کے لیے قیامت بن کر ابھرا، جب دہشت گردوں نے ہائی جیک کیے گئے دو طیارے نیویارک میں موجود ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ایک کے بعد ایک ٹکرا دیئے اور دنیا کی بلند ترین عمارت منٹوں میں زمین بوس کر دی۔

اس سانحے میں 3 ہزار مقامی اور غیر ملکی باشندے مارے گئے، 6 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے جبکہ 10 ارب ڈالر کا مالی نقصان بھی ہوا۔

اسی روز دو مزید طیارے بھی ہائی جیک کیے گئے، جن میں سے ایک پینٹاگون کے قریب اور دوسرا جنگل میں گرکر تباہ ہوا۔

واقعے کے فوری بعد دنیا بھر تشویش کی لہر دوڑ گئی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر بھی محسوس ہوئی۔

مزید پڑھیں: ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملہ: ’سعودی عرب نفرت پھیلانے کا مجرم‘

امریکا کی جانب سے ان حملوں کا ذمہ دار عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا گیا، تاہم عدم اور ناکافی ثبوتوں کی روشنی میں ہی سابق امریکی صدر جارج بش نے اسامہ کے میزبان ملک افغانستان پر یلغار کردی، جس کے بعد دہشت گردی کے جن نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔

ایک عشرے سے زائد جاری رہنے والی جنگ میں شدت پسندوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں افغان شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ متعدد بے گھر ہوگئے۔

امریکا نے اسامہ بن لادن کو اپنا اولین دشمن قرار دیا اور ان کی تلاش میں افغانستان میں بے شمار کارروائیاں کیں اور بالآخر مئی 2011 میں امریکا نے اپنے سب سے بڑے دشمن اسامہ بن لادن کو ابیٹ آباد میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔

نائن الیون نے امریکا کی پیشگی حملوں کی پالیسی یعنی 'بش ڈاکٹرائن' کو جنم دیا اور افغانستان ،شمالی کوریا، عراق اور ایران برائی کا محور قرار پائے اور اسی پالیسی کے تحت امریکا نے ان ممالک میں کارروائیوں کا آغاز کیا.

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 3ہزار امریکیوں کے بدلے امریکا نے لاکھوں افراد کو ہلاک کردیا، لاکھوں زخمی اور معذور جبکہ ہزاروں گرفتار ہوئے، اس کے علاوہ گوانتانامو اور ابوغریب جیسے بدنام زمانہ عقوبت خانے وجود میں آئے۔

نائن الیون واقعے کے 13 سال مکمل ہونے پر امریکی صدر بارک اوباما نے قوم سے خطاب میں عراق اور شام میں تیزی سے بڑھنے والی تنظیم داعش کے خلاف اہم اعلانات کیے تھے۔

صدر اوباما نے عراق میں داعش کے خلاف حملوں کو تیز اور شام میں بمباری کے آغاز کو حتمی شکل دینے کے ساتھ ساتھ داعش میں موجود اعتدال پسندوں کی مدد کے ساتھ سعودی عرب میں ان کی فوجی تربیت کا بھی اعلان کیا تھا۔

امریکا کی جنگجوانہ پالیسی سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا اور یہاں شدت پسندی بڑھی، بالخصوص افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے نہ صرف قبائلی علاقوں میں ٹھکانے بنائے بلکہ شہری علاقوں میں بھی کھل کر موت کا کھیل کھیلا۔

تاہم 15 سال گزرنے کے بعد بھی نائن الیون کا کوئی حقیقی ملزم سامنے نہ آسکا۔