پاکستان

سعودیہ سے بے روزگار پاکستانیوں کی وطن واپسی

ملازمین کو کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں، کئی مزدور اپنے بقایاجات ملنے کے امید میں کیمپس میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

کراچی: سعودی عرب کی کمپنیوں سے نکالے جانےوالے پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری ہے اور ان میں سے مزید 10 افراد گزشتہ روز پاکستان پہنچے۔

سعودی عرب سے بے روزگاری کی وجہ سے پاکستان واپس آنے والے افراد کی تعداد اگرچہ کم ہے تاہم تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے پریشان ملازمین کی وطن واپسی کا عمل جاری ہے۔

یہ سلسلہ 8 ماہ قبل شروع ہوا جب سعد ٹریڈنگ اینڈ کنٹریکٹنگ کمپنیز، سعودی اوگر لمیٹڈ اور بن لادن گروپ جیسے اداروں نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا۔

اس کے بعد ریاض، جدہ، دمام اور طائف وغیرہ کی کمپنیوں میں کام کرنے والے تقریباً 12 ہزار پاکستانیوں کو اچانک دھچکا لگا جو ان کے لیے غیر متوقع تھا۔

گزشتہ چند مہینوں سے ملازمین چار شہروں میں کمپنیوں کی جانب سے قائم کیے جانے والے 19 کیمپوں میں سخت حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

اعلیٰ حکام اور وطن واپس آنے والے مزدوروں کے مطابق ان میں سے کئی لوگ ایسے ہیں جن کے کمپنی پر بقایا جات ہیں اور وہ اپنی رقم ملنے کے انتظار میں وہیں مقیم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب میں تنخواہوں سے محروم پاکستانیوں کی مشکلات

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کے مطابق اس وقت تقریباً 26 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں ملازمت کی غرض سے موجود ہیں۔

جن ملازمین کو نوکری سے نکال دیا گیا ان میں سے بعض کا تعلق کراچی کے علاقے غریب آباد کی راجپوت کالونی سے ہے، اس کالونی کے تقریباً 400 افراد سعودی عرب، قطر اور عمان میں سنگ مرمر کا کام کرتے ہیں اور اس کالونی میں کوئی ایسا گھر نہیں جس کا کوئی فرد اس پیشے سے وابستہ نہ ہو۔

26 سالہ محمد رفیع بھی ان میں سے ایک ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اپنے خاندان میں وہ واحد شخص ہے جسے مکہ کی مسجد الحرام کے لیے سنگ تراشی اور سنگ مرمر بچھانے کا اعزاز حاصل ہوا۔

تاریخ دان گل حسن کلماتی کے مطابق راجپوت کالونی کے اردو بولنے والے رہائشی تقسیم ہند سے قبل رنچھوڑ لائن میں مارواڑی اور صلوات برادری کے ساتھ رہتے تھے۔

مارواڑی اور صلوات برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا تعلق آبائی طور پر انڈیا کی ریاست گجرات کے علاقے کچھ سے تھا جو عمارتیں اور اینٹیں بنانے میں مہارت رکھتے تھے۔

ایک مقامی شخص نے بتایا کہ تقسیم ہند کے بعد اردو بولنے والے، مارواڑی اور صلوات برادری کے لوگ راجپوت کالونی آگئے، بعد ازاں نئی دہلی اور راجستھان سے آنے والے مہاجرین بھی اسی کالونی میں آباد ہوگئے جنہیں سنگ مرمر کے کام میں مہارت حاصل تھی۔

سعودی عرب جانے کے عمل کے بارے میں رفیع نے بتایا کہ زیادہ تر مزدوروں کو سعودی عرب میں ایجنٹس کے ذریعے کام ملا جو اخبار میں اشتہار دیتے ہیں یا پھر کسی جاننے والے کے ذریعے رابطہ ہوجاتا ہے۔

رفیع نے بتایا کہ زیادہ تر ان لوگوں کی جانب سے ریفرنس دے دیا جاتا ہے جو ماضی میں سعودی عرب میں ملازمت کرچکے ہوتے ہیں اور انہیں ایجنٹ کو ملنے والی رقم کا 25 فیصد حصہ مل جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: سعودیہ میں پھنسے پاکستانیوں کی مدد کی ہدایت

رفیع کے مطابق ہمیں سعودی عرب جانے کے لیے 3 لاکھ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں جس میں ویزا اور ایئرٹکٹ شامل ہوتا ہے اور اگر ایجنٹ اچھا نہیں تو ٹکٹ اور ویزا کے لیے الگ سے پیسے بھی دینے پڑسکتے ہیں۔

زیادہ تر کیسز میں تنخواہ پہلے ہی طے کرلی جاتی ہے تاہم ہمیشہ تنخواہ اتنی نہیں ہوتی جس کا وعدہ کیا جاتا ہے، جیسا کہ رفیع سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اسے 1500 ریال ماہانہ تنخواہ ملے گی لیکن جب وہ ریاض پہنچا تو اسے بتایا گیا کہ 1100 ریال تنخواہ اور 300 ریال کھانے کی مد میں ملیں گے۔

رفیع نے بتایا کہ بعض اوقات تو فوڈ الاؤنس بھی نہیں ملتا تھا اور یہ خرچ بھی تنخواہ سے پورا کرنا پڑتا تھا، شروع میں تو یہ سب ٹھیک لگا لیکن بعد میں احساس ہوا کہ تنخواہ ناکافی ہے۔

رفیع کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایجنٹ کی جانب سے جو دستاویز دیے جاتے ہیں وہ قانونی اور تصدیق شدہ نہیں ہوتے، ایسے معاملات میں مزدوروں کو دو آپشن دیے جاتے ہیں، اگر زیادہ تنخواہ چاہیے تو اپنے شناختی دستاویز جیسے پاکستانی پاسپورٹ، اقامہ، مقیم کارڈ یا سعودی ریزیڈنس پرمٹ جمع کراؤ ورنہ کم تنخواہ پر کام کرو۔

سعودی عرب کی اوگر کمپنی میں 22 ماہ تک کام کرنے کے بعد گزشتہ برس دسمبر میں رفیع کو بغیر کوئی وجہ بتائے ملازمت سے نکال دیا گیا۔

چونکہ اس کا اقامہ کمپنی کے پاس تھا لہٰذا اس کے پاس اپنی 6 ماہ کی تنخواہ کا تقاضہ کرنے کے لیے میڈیکل انشورنس کارڈ کے علاوہ کوئی اور دستاویزی ثبوت نہیں تھا۔

رفیع نے بتایا کہ ’میں نے کمپنی سے اپنے بقایا جات کی ادائیگی کی بات کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، انہوں نے کمپنی کے دیوالیہ ہونے کے بعد مجھے اور دیگر مزدوروں کو کھانے کے لیے 200 ریال دیے لیکن جب فارغ ہونے والے ملازمین کی تعداد زیادہ ہونے لگی تو یہ الاؤنس بھی بند ہوگیا‘۔

سعودی عرب میں پاکستانی مزدوروں کی حالت زار اس وقت دنیا کے سامنے آئی جب انہوں نے 22 جولائی کو پاکستانی قونصل خانے اور کمپنیوں کے باہر احتجاج کیا۔

مظاہرین نے پاکستانی جدہ اور ریاض میں پاکستانی قونصلیٹ کے حوالے سے بھی شکایات کیں کہ وہ ان کی کوئی مدد نہیں کررہے۔

تاہم دفتر خارجہ کے ترجمان کہتے ہیں کہ ’وہ پاکستانی مزدور جو اب بھی کیمپوں میں موجود ہیں وہ اپنی مرضی سے وہاں رہ رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بقایا جات مل جائیں اور وہ جلد از جلد واپس آجائیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ہماری جانب سے سعودی حکام سے بات کی گئی ہے جنہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان پاکستانی شہریوں کو گرفتار یا ڈی پورٹ نہیں کریں گے جن کے ویزا کے معیاد حال ہی میں ختم ہوئی ہے۔

پاکستانی قونصل خانوں کے کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’میں ایسے سیکڑوں مزدور گنوا سکتا ہوں جن کی مدد سعودی عرب میں ہمارے نمائندوں نے کی‘۔

یہ خبر 11 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی