ابو کے اسٹیشن ماسٹر کے کمرے سے نکل کر یہ نوید سنانے سے قبل ہی ہم کھڑکی سے براہ راست یہ مختصر گفتگو سن چکے ہوتے تھے۔
ریلوے اسٹیشن پر ہمارا پسندیدہ مشغلہ کھڑکی سے اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں نصب دو پَروں والے پنکھے اورکالے بھدے ٹیلی فون سیٹ کو دیکھنا ہوتا۔ یہ انگریز دور کی اشیاء ہمارے لیے کسی عجائب گھر کے نوادرات سے کم نہ تھیں۔
گاڑی آنے سے پہلے نگاہیں اسی جانب مرکوز رہتیں جس سمت سے ریل گاڑی نے آنا ہوتا۔ ٹرین کے پلیٹ فارم پر پہنچنے سے پہلے کالا سیاہ دھواں کالے بادلوں کی مانند اٹھتا ہوا دکھائی دیتا۔ ہمیشہ یہ خواہش ہوتی کہ آج بھی اتفاق سے الٹا انجن ہی لگا ہو۔ (بعض دفعہ گاڑی کے ساتھ الٹا انجن لگا ہوتا تھا، اُس اسٹیم انجن کی خاصیت یہ تھی کہ یہ الٹا سیدھا دونوں جانب یکساں رفتار سے چل سکتا تھا۔)
اسٹیشن سے آدھا کلومیٹر کے فاصلے سے انجن کی بھاپ والی سیٹی کی مخصوص کوک کے ساتھ ہی اسٹیشن پر ایک ہل چل پیدا ہو جاتی۔ سواریاں سامان سنبھالتیں، مائیں بچوں کو پکڑتیں، کانٹا بدلنے والا لیور ایسے سنبھالتا جیسے توپ سے فائر کرنے لگا ہو اور گارڈ ہاتھ میں ہری اور سرخ جھنڈیاں لیے سرپٹ سگنل کی جانب دوڑتا۔
بچپن میں سوچا کرتے تھے کہ یہ بندہ کس قدر طاقتور ہے جس کے ہاتھ کے ایک اشارے سے اتنی بڑی ریل گاڑی رک جاتی ہے۔ اسٹیشن پر ہماری سب سے ناپسندیدہ شخصیت یہی گارڈ ہوتا جو گاڑی کو ہم تک پہنچنے سے پہلے روک لیتا۔
سگنل ملتے ہی انجن حرکت میں آتا، دھوئیں کے بادل انجن سے نکل کر ایک بار پھر آسمان کو سیاہ کرتے اور انجن گھن گرج کے ساتھ بوگیوں کو کھینچتا ہوا دندناتا ہوا اسٹیشن میں داخل ہو جاتا۔
یہ ریل گاڑی میٹر گیج ریلوے لائن پر دوڑنے والی انگریز دور کی باقیات میں سے تھی جو ہمارے علاقے ضلع میرپورخاص میں قیامِ پاکستان سے پہلے 1937-1936 میں قائم کی گئی تھی۔
اس ریلوے لائن کے قیام کے پیچھے ایک بڑا مقصد کراچی بندرگاہ سے سامان بمبئی (موجودہ ممبئی) تک پہنچانا تھا کیوں کہ اس سے پہلے کراچی بندرگاہ پر اترنے والا سامان بمبئی پہنچانے کا کوئی سیدھا روٹ میسر نہ تھا۔ کراچی بندرگاہ سے سامان 1200 کلومیڑ دور لاہور لے جایا جاتا اور پھر وہاں سے واپس متحدہ ہندوستان کے جنوبی علاقوں تک واپس لایا جاتا۔
چناچہ 1890 سے 1940 تک حیدرآباد سے کھوکھرا پار اور موجودہ ہندوستان کے علاقے موناباؤ تک براستہ میرپور خاص 500 کلومیڑ سے طویل یہ میٹر گیج اور براڈ گیج ریلوے لائن بچھائی گئی (ریلوے کی اصطلاح میں گیج سے مراد دونوں پٹریوں کا درمیانی فاصلہ ہے۔ ایک میٹر فاصلے والی ریلوے لائن کو میٹر گیج جبکہ پانچ فٹ چھے انچ کے درمیانی فاصلے والی ریلوے لائن کو براڈ گیج ریلوے لائن کہا جاتا ہے)۔
اس ریلوے لائن سے جہاں ایک طرف کراچی پورٹ سے ہندوستان کے طول و عرض تک عالمی تجارتی سامان پہنچانا ممکن ہوا، وہاں دور دراز دیہی علاقوں سے زرعی اجناس کی شہروں اور بڑی منڈیوں تک رسائی بھی آسان، کم وقت اور کم قیمت میں ہونے لگی۔
میرپورخاص سے نکلنے والی میٹر گیج ریلو ے لائن جمڑاؤ، جلہوری، کوٹ غلام محمد، کاچھیلو، ڈگری، ٹنڈو جان محمد، جھڈو، نو کوٹ، نفیس نگر، نبی سر، کنری، سامارو، پتھورو اور شادی پلی کے چھوٹے بڑے اسٹیشنوں سے ہوتی ہوئی ایک دائرے کی صورت میں تقریباً 200 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے واپس میرپور خاص پہنچتی۔