جب میں جنگِ ستمبر کے دوران انڈیا میں پھنسا
بمبئی (جو کہ اب ممبئی ہے)، میرا آبائی شہر ہے اور اس نے مجھے اپنے جگ دیسی مزاج کی وجہ سے ہمیشہ سے اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا۔
اس کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں میرے کئی دوست اور رشتہ دار موجود تھے۔
انگریزی ادب میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ایک سال بعد 1965 میں میں نے سوچا کہ بمبئی دوبارہ جانے کا یہ اچھا موقع ثابت ہوگا۔ میں ایک سال قبل بھی وہاں جا چکا تھا اور بولی وڈ کی کچھ اہم شخصیات سے انٹرویو کیے تھے۔ دو سال قبل ہی میں پاکستان کے انگریزی زبان میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ماہانہ میگزین ایسٹرن فلم کا ایڈیٹر بنا تھا اور اب دیگر بولی وڈ ستاروں سے ملاقاتیں کرنا چاہتا تھا۔
اس وقت میں محض 22 برس کا تھا اور میرے دوستوں نے مجھے خبردار کیا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر تنازع شدت اختیار کر چکا ہے اور صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ میں نے ان کی اس وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا کیوں کہ چند ماہ قبل ہی رن کَچھ اور سندھ کی سرحدوں کے معاملے پر جھڑپیں ہوئی تھیں، مگر تنازع میں شدت نہیں رہی تھی۔
وہ اگست 1965 کا تیسرا ہفتہ تھا جب میں سابرمتی بحری جہاز میں سوار ہوا تھا، اتفاقیہ طور پر یہ وہی بحری جہاز تھا جو مجھے اور میرے گھر والوں کو 1950 میں، جب ہم نے پاکستان ہجرت کی تھی، تب کراچی لایا تھا۔ وہ بیڑا بمبئی کے پرنسز ڈاکس پر لنگر انداز ہوا۔
میں نے اپنے ابتدائی کچھ دن فلمیں دیکھنے میں گزارے۔ دلیپ کمار اور وحیدہ رحمان کی فلم 'دل دیا درد لیا' کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی نوازش سے مجھے کاردار اسٹوڈیوز کے منی سنیما گھر میں فلم دیکھنا کا موقع ملا۔
سنیما کی اگلی صف میں دلیپ کمار خود تشریف فرما تھے۔ وہ موسیقار نوشاد سے فلم کی پس منظر موسیقی کے حوالے گفتگو کر رہے تھے، جسے ابھی ریکارڈ ہونا باقی تھا۔ فلم میں پیش کار اور ہدایت کار کا نام اے آر کاردار نمودار ہونا تھا جبکہ درحقیقت وہ دلیپ کمار ہی تھے جو ہدایات دے رہے تھے۔
چوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر میں کشیدگی جاری تھی، کئی مسلمان مجھے اس طرح نظر انداز کر رہے تھے جیسے مجھے کوئی مہلک مرض ہو۔
اس سے قبل دورہ ہندوستان کے دوران میری نوشاد سے ان کے گھر خوشگوار بات چیت ہوئی تھی مگر اس بار انہوں نے مجھے نظر انداز کیے رکھا۔ مگر دلیپ کمار نے میرے چند سوالوں کے جواب ضرور دیے۔ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مدراس (اب چنئی)، جہاں وہ فلم 'آدمی' کی شوٹنگ کر رہے تھے، سے لوٹنے کے بعد مجھے سے ملاقات کریں گے۔
مگر قسمت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔
6 ستمبر کی دوپہر کو 'چودھویں کا چاند' فلم دیکھنے کے بعد میں ارشاد علی کی پروڈکشن میں بننے والی فلم 'ساز اور آواز' کی چند تصاویر لینے ارشاد علی کے دفتر گیا، جو کہ مجھے ایسٹرن فلم میگزین میں شایع کرنے کے لیے چاہیئں تھیں۔
ان کے ساتھ مغربی پنجاب کے تین مہاجرین بیٹھے تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ میں پاکستان سے ہوں تو ان میں سے ایک نے کہا: ’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ جاؤ اپنے ملک لوٹ جاؤ۔ تمہارے صدر جنرل ایوب نے ہندوستان پر جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔‘‘
ارشاد علی مجھے تصاویر دینے کے بہانے ایک دوسرے کمرے میں لے گئے۔ انہوں نے مجھے پچھلے دروازے سے چلے جانے کو کہا۔ انہوں نے کہا، ’’تمہارا یہاں سے چلے جانا جتنا تمہارے لیے فائدہ مند ہے اتنا ہی میرے بھی لیے بھی ہے۔‘‘
میں نے فلائٹ کے ذریعے کراچی روانہ ہونے کی کوشش کی مگر دونوں ممالک کے درمیان تمام پروازیں منسوخ ہو چکی تھیں۔
اگلے دن اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئیں کہ پاکستانیوں کو ہندوستان سے جانے کے لیے ایگزٹ پرمٹس کی ضرورت ہوگی، جبکہ پاکستان میں پھنسے ہندوستانیوں کو بھی ملک چھوڑنے کے لیے ایک خصوصی اجازت نامہ درکار تھا۔
میں اپنے ایک انکل کے ساتھ قیام پذیر تھا جو دیر تک دفتر میں رہا کرتے، جبکہ ان کی اہلیہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہا کرتی تھیں۔
خوش قسمتی سے میری اسکول کی ایک دوست زلیخا جن کا تعلق لاہور سے تھا، جہاں ان کے ساتھ میں نے ہندوستان سے ہجرت کے بعد تین سال گزارے تھے، وہ بمبئی کے جنوب میں ایک پوش علاقے میں مقیم تھیں۔ ان کے شوہر یوسف ایک کاروباری شخصیت تھے، جو اکثر ہمیں لنچ کروانے یا شام کی چائے پلانے باہر لے جاتے تھے۔
ایک دن انہوں نے ہمیں گیٹ وے آف انڈیا کے قریب واقع ریگل سینما پر ڈراپ کیا، سنیما میں بیٹھ کر ہم ایک انگریزی فلم دیکھنے لگے۔
اچانک فلم رکی اور پردے پر فضائی حملہ ہونے کی اطلاع چلنے لگی، اور فلم بینوں کو زیرِ زمین کار پارکنگ میں جانے کی ہدایات جاری کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی اطلاع دی گئی تھی کہ، ’’بھگدڑ نہ مچائیں، اسٹاف آپ کی رہنمائی کرے گا۔‘‘ مگر سب سے پہلے اسٹاف نے ہی دوڑ لگا دی تھی۔
جب پریشانی سے بھرپور 16 دنوں کے بعد جنگ بندی کا اعلان ہوا تو میں نے سوچا کہ اب ایگزٹ پرمٹ جلد ہی جاری ہو جائیں گے مگر یہ بھی میری محض خام خیالی ہی ثابت ہوئی تھی۔
جنگ ختم ہونے کے دو ہفتوں بعد میں نے تاراپور والا نامی ایک بڑے کتاب گھر کا رخ کیا جو کہ ان دنوں میوزیم کے قریب واقع تھا۔ کراچی یونیورسٹی کی ایک پروفیسر نے مجھے ان کے والد کی آنکھوں کے لیے قطرے لانے کو کہا تھا، جسے اس کتاب گھر پر کام کرنے والا ایک بوڑھا پارسی تیار کرتا تھا۔
میں اس بوڑھے پارسی نفیس شخص کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ مجھے مس رودھا وانیا نے بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اوہ! آپ پاکستان سے آئے ہیں۔‘‘، مجھے ان کے لہجے میں ڈر محسوس ہوا۔
اگلے دن سی آئی ڈی آفس سے سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک شخص میرے انکل کے گھر پہنچا اور مجھے بتایا کہ وہ مجھ سے تفتیش کرنا چاہتے ہیں۔
میں نے سوچا کہ بس اب مجھے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔
میں نے اپنا سوٹ کیس اٹھایا جس میں میرے پرانے کپڑے اور گاندھی پر دو کتابیں تھیں۔ اہلکار نے کہا کہ، ’’یہ سامان کیوں اٹھا رہے ہو؟ ہمارے دفتر میں رہائش کا بندوبست نہیں ہے۔" یہ سن کر مجھے قرار پہنچا۔
کرافورڈ مارکیٹ کے قریب واقع سی آئی ڈی آفس میں مجھے مسٹر ٹاکلے نامی شخص کے پاس لے جایا گیا جنہوں نے میرے پاسپورٹ کا جائزہ لیا۔
انہوں نے پوچھا کہ "آپ کے پاس پونے کا ویزا ہے، مگر لگتا ہے کہ آپ وہاں نہیں گئے، کیوں؟"
میں نے الفاظ تول تول کر جواب دیتے ہوئے کہا کہ "دونوں ممالک کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے۔"
"آپ اس جنگ کو کس طرح دیکھتے ہیں؟" اگلا سوال تھا۔
میں نے کہا کہ "آپ مجھ سے ان دو ملکوں کے درمیان جنگ پر کیا تبصرہ چاہتے ہیں جن کی اچھی خاصی آبادی کو پیٹ بھر کھانا بھی میسر نہیں؟"
ٹاکلے نے کہا "اچھا اچھا ٹھیک ہے، اب مجھے صرف یہ بتائیں کہ آپ تاراپور والا بک شاپ کیوں گئے تھے؟"
مجھے احساس ہوا کہ اس عمر رسیدہ پارسی شخص نے سی آئی ڈی آفس کو خود اطلاع دی ہوگی۔
کیوں کہ میرے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تھا، لہٰذا میں نے ٹاکلے کو سب کچھ بتا دیا۔ "اگر آپ مجھے منع کریں گے تو میں آنکھوں کے قطروں کی بوتل لینے نہیں جاؤں گا۔"
اس پر ٹاکلے نے نرم انداز میں کہا کہ "میں آپ سے کہوں گا کہ آپ وہاں جائیں اور دو تین بوتلیں لے لیں، کیوں کہ مجھے نہیں لگتا کہ اب پاکستانی کافی عرصے تک یہاں آئیں گے۔ آپ اچھے شخص معلوم ہوتے ہیں، بس دفاعی تنصیبات کے قریب مت جائیے گا۔"
"مگر دفاعی تنصیبات ہیں کہاں؟" میرے اس معصومانہ سوال پر ٹاکلے ہنس پڑا۔
"میں آپ کو نہیں بتاؤں گا، کیوں کہ کل آپ کو کسی نے گرفتار کر لیا تو آپ تفتیش کاروں کو بتا دیں گے کہ حساس مقامات کی لوکیشن میں نے آپ کو بتائی تھیں۔ آپ اپنے رشتے داروں سے پوچھیں، وہی آپ کو بتائیں گے کہ دفاعی تنصیبات کہاں ہیں،" یہ کہتے ہوئے ٹاکلے نے میرا پاسپورٹ واپس کر دیا۔
"مجھے میرا ایگزیٹ پرمٹ کہاں سے ملے گا؟" میرا آخری سوال تھا۔
"میں ہی جاری کروں گا، مگر اس کے لیے مجھے دہلی سے 'گرین سگنل' کا انتظار ہوگا۔ آپ کو اس بارے میں اخبارات سے اطلاع مل جائے گی۔"
پھر انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ "آپ پرمٹ حاصل کرنے والے آخری شخص ہوں گے،" اور پھر چائے کا کپ اور پف بسکٹس کی پلیٹ میری طرف بڑھا دی۔
"فکر مت کریں، میں یقینی بناؤں گا کہ آپ ایگزیٹ پرمٹ حاصل کرنے والے پہلے شخص ہوں۔"
مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھ میں دلچسپی لے رہے تھے، چنانچہ میں نے بھی ان کے ساتھ اتنی ہی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا۔ پھر میں ہر تیسرے چوتھے دن ان کے پاس جانے لگا کہ آیا وزارتِ داخلہ نے ایگزیٹ پرمٹ جاری کرنے شروع کیے ہیں یا نہیں۔
ایک دن ٹاکلے نے مزاحیہ انداز میں کہا: "دیکھیں، آپ ہر دوسرے دن میرے آفس آ جاتے ہیں۔ میں آپ کو چائے کی پیشکش کرتا ہوں مگر آپ پف بسکٹس بھی ایسے مانگتے ہیں جیسے کہ آپ کا پیدائشی حق ہو۔ ہاں میں افسر ہوں مگر درمیانے کیڈر کا۔ اپنے گھر پر رہا کریں اور جب بھی مجھے وزارتِ داخلہ سے 'اوکے' ملے گا تو میں آپ کو فون کر دوں گا۔"
کیوں کہ دونوں ممالک کے درمیان فون کنکشن نہیں تھے، اور خطوط اور تار کے تبادلے پر بھی پابندی تھی، لہٰذا کراچی میں میرے والدین خوفزدہ تھے کہ شاید مجھے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
کوئی ایک ماہ بعد برطانوی پاسپورٹ رکھنے والے میرے رشتے دار لندن گئے اور میرے والد کو فون پر اطلاع دی کہ میں بمبئی میں اچھا وقت گزار رہا ہوں، فلمیں دیکھ رہا ہوں، اور کلبز اور ریسٹورنٹس جا رہا ہوں۔
بمبئی آنے کے تقریباً تین ماہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ 'روابط' والے پاکستانیوں کو ایگزیٹ پرمٹ مل رہے تھے۔
میں نے ایک ممبر آف پارلیمنٹ سے بات کی جو میری والدہ کی سرپرست رہ چکی تھیں۔ انہوں نے سچیولیا (ہندی میں سیکریٹریٹ) میں کسی مسٹر وینکٹیش کو خط لکھا۔ انہوں نے اپنے سیکریٹری کو بلوایا اور وزارتِ داخلہ میں کسی کے نام خط لکھوا کر کہا کہ یہ میرے پاسپورٹ کے ساتھ اسپیشل سروس کے ذریعے دہلی بھجوا دیا جائے۔
تین دن بعد مجھے ٹاکلے کا فون آیا۔ "آخر تم ہو کہاں؟ میں ایگزیٹ پرمٹس جاری کر رہا ہوں اور تمہارا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔"
میں نے انہیں بتایا کہ میرا پاسپورٹ دہلی میں ہے اور مجھے جانے کی خصوصی اجازت ملے گی۔
"کیا؟ تمہیں سرکاری دفاتر کی افسر شاہی کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ اپنے دوست کے پاس جاؤ اور اس سے اپنا پاسپورٹ واپس لو،" ٹاکلے بہت جھنجھلایا ہوا تھا۔
میں فوراً مسٹر وینکٹیش کے دفتر گیا۔ انہوں نے اپنے سیکریٹری کو بلوایا اور وزارتِ داخلہ کے نام ایک اور خط لکھوایا کہ میرا پاسپورٹ واپس کر دیا جائے کیوں کہ ایگزیٹ پرمٹ جاری کیے جا رہے تھے۔
میں سیکریٹری کے ساتھ کمرے سے باہر نکلا۔
میں پریشان تھا۔ میں نے اپنی جیب سے سگریٹ کی ڈبیا نکالی تو مجھے اندازہ ہوا کہ میرے پاس ماچس تھی ہی نہیں۔ میں نے سیکریٹری کو ایک سگریٹ کی پیشکش کی اور میرا سگریٹ جلانے کے لیے کہا۔
اس نے ماچس نکالنے کے لیے اپنا دراز کھولا تو میرا پاسپورٹ اس میں پڑا تھا۔
میں نے سیکریٹری سے کہا، "میرا پاسپورٹ واپس کرو۔" بظاہر اس نے خط وزارتِ داخلہ کو بھیج دیا تھا مگر میرا پاسپورٹ بھیجنا بھول گیا تھا۔
اس نے التجائیہ انداز میں کہا "نہیں، میں یہ آپ کو واپس نہیں کر سکتا۔ مجھے ہدایات پر عمل کرنا ہوگا۔ آپ کا پاسپورٹ دہلی جائے گا، اور میں یقینی بناؤں گا کہ یہ ایک ہفتے میں واپس آ جائے۔"
میں تقریباً چلایا، "اگر تم نے مجھے پاسپورٹ واپس نہیں دیا تو میں مسٹر وینکٹیش کے پاس جاؤں گا، اور باقی کا معاملہ وہ خود دیکھ لیں گے۔"
"اچھا اچھا، آپ لے لیں، مگر وعدہ کریں کہ آپ میرے باس کو اس بارے میں نہیں بتائیں گے۔"
میں نے وعدہ کیا اور 51 سالوں تک اس وعدے پر قائم رہا۔
ٹاکلے نے اپنے دن کا اختتام ہوجانے کے باوجود مجھے ایگزیٹ پرمٹ جاری کر دیا۔
دو دن بعد میں ال اٹالیہ کی فلائٹ سے کراچی پہنچا جہاں ایئرپورٹ پر بڑی تعداد میں دوست احباب میرے استقبال کے لیے موجود تھے۔
میں جب 1976 میں دوبارہ بمبئی گیا تو سی آئی ڈی آفس میں اپنے دوست سے ملنے گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ ٹاکلے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے گاؤں واپس چلا گئے تھے اور وہاں کچھ ہی عرصے میں ان کی وفات ہوگئی تھی۔
آصف نورانی ایک سینئر صحافی ہیں جو فنون لطیفہ، ادب اور سفر نگاری کے ماہر ہیں۔ ان کی تحریروں میں مزاح کا عنصر پایا جاتا ہے۔ انہوں نے چار کتابیں لکھیں جن میں سے دو باہر کے ناشروں نے چھاپیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔