پاکستان

حریت رہنماؤں کا ہندوستانی وفد سے ملاقات کرنے سے انکار

پہلے جموں و کشمیر کی کشیدہ صورت حال کو بہتر بنایا جائے اور اس کے بعد باقاعدہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے، حریت رہنما

سری نگر: جموں و کشمیر کے حریت پسند رہنماؤں نے ہندوستانی حکومت کی جانب سے بھیجے گئے کل جماعتی وفد سے بات چیت کرنے سے انکار کردیا۔

ہندوستانی اخبار دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر کی حریت تحریک کے سرگرم اور انتہائی اہم رہنما سید علی شاہ گیلانی نے مذکورہ وفد سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کیا۔

خیال رہے کہ سید علی شاہ گیلانی کو گذشتہ 60 روز سے ہندوستانی فورسز نے ان کے گھر میں نظربند کررکھا ہے۔

رپورٹ کے مطابق چار ایم پیز، جن میں سی پی آئی (ایم) جنرل سیکریٹری سیتا رام ویچرے، سی پی آئی رہنما ڈی راجا، جے ڈی (یو) کے رہنما شاراد یادیو اور آر جے ڈیز کے اجے پرکاش نارائن شامل ہیں، سید علی گیلانی سے ملاقات کیلئے ان کے گھر پر گئے تھے۔

ہندوستانی وفد جیسے ہی سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کے باہر پہنچا تو کشمیریوں نے ان کا استقبال ہندوستان مخالف نعروں کے ساتھ کیا۔

مزید پڑھیں: کشمیر میں 51 ہلاکتیں،ہندوستانی وزیر داخلہ سری نگر پہنچ گئے

اس موقع پر شاراد یادیو کا کہنا تھا کہ 'ہماری جانب سے ان اقدامات کا مقصد دنیا کو یہ باور کروانا تھا کہ ہم کسی سے بھی مذاکرات کیلئے تیار ہیں چاہے وہ ملنا چاہے یا نہیں'۔

مذکورہ ہندوستانی وفد نے حریت پسند رہنما یٰسین ملک سے ملاقات کی کوشش بھی کی جو ہوماما میں قائم بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے کیمپ میں غیر قانونی حراست میں ہیں، تاہم یٰسن ملک نے وفد کو کہا کہ وہ ان سے اپنے دہلی کے دورے کے موقع پر ملاقات کریں گے۔

اس کے بعد ہندوستانی حکومت کی جانب سے بھیجے گئے وفد نے حریت رہنما عبدالغنی بھٹ سے ملنے کی کوشش کی تاہم انھوں نے بھی وفد سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا۔

ہندوستانی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس موقع پر عبدالغنی نے ہندوستانی وفد کو خوش آمدید کہا تاہم واضح کیا کہ یہ فیصلہ کیا جاچکا ہے کہ وفد سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔

ادھر ہندوستان کی جماعت کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی کشمیری حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق سے ملاقات کیلئے چشمہ شاہی کے سیاحتی مقام پر گئے جسے ہندوستانی فورسز نے گھیرے میں لے کر سب جیل قرار دے رکھا ہے۔

میر واعظ عمر فاروق اور اسد الدین اویسی کے درمیان ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: ہندوستانی فوج کی فائرنگ ، 100 سے زائد کشمیری زخمی

اس موقع پر کشمیری حریت پسند رہنما شبیر شاہ کو بھی مذکورہ سب جیل میں منتقل کیا گیا۔

جس کے بعد اسد الدین نے شبیر احمد شاہ سے بھی علیحدہ ملاقات کی تاہم اس موقع پر شبیر شاہ نے واضح کیا کہ وہ ہندوستانی حکومت یا ان کے بھیجے گئے کسی بھی وفد سے مذاکرات کیلئے تیار نہیں ہیں۔

اسد الدین سے ملاقات کے بعد شبیر شاہ نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ 'میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ یہ مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کا طریقہ کار نہیں ہیں، مجھے پولیس اسٹیشن سے سب جیل لایا گیا ہے اور تصور کیا جارہا ہے کہ میں مذاکرات کروں گا'۔

شبیر شاہ کا کہنا تھا کہ 'میں نے انھیں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ پہلے وادئ کشمیر کی حالت کو بہتر بنایا جائے اور اس کے بعد باقاعدہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے'۔

اسد الدین کی ملاقات کے بعد ہندوستانی وفد کے دیگر چار اراکین نے میر واعظ عمر فاروق سے ملاقات کی کوشش کی تاہم انھوں ںے وفد سے ملاقات سے انکار کردیا۔

ہندوستانی وفد نے میر واعظ عمر فاروق سے ملقات کیلئے 25 منٹ تک انتظار کیا تاہم انھوں نے ملاقات نہیں کی۔

اس سے قبل ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں فورسز کی فائرنگ سے 100 سے زائد کشمیری شہری زخمی ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: ’کشمیر ہندوستان کا اندرونی معاملہ نہیں‘

ہندوستانی فورسز نے شوپیاں اور آننت ناگ میں نکالی جانے والی دو ریلیوں کو منتشر کرنے کیلئے اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نیتیجے میں 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔

اس واقعے کے بعد مشتعل کشمیریوں نے شوپیاں میں منی سیکریٹریٹ کی عمارت کو نذر آتش کردیا جس میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر سمیت کئی حکومتی محکموں کے دفاتر قائم ہیں۔

پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کی شیلنگ اور چھروں کا بھی استعمال کیا، ایک سینئر ہیلتھ آفیشل نے بتایا کہ شوپیاں کے سرکاری ہسپتالوں میں 60 کے قریب زخمیوں کو لایا گیا جن میں سے ایک کی حالت تشویش ناک ہے۔

20 افراد کو ڈسٹرکٹ ہسپتال میں طبی امداد فراہم کی گئی جن میں سے 9 شدید زخمی افراد کو سری نگر منتقل کردیا گیا جبکہ مزید زخمیوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

کشمیر کے جنوبی علاقے آننت ناگ میں ڈاکٹرز نے بتایا کہ چھ زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا جن کے جسم پر چھروں کے زخم موجود ہیں۔

واضح رہے کہ 8 جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی انڈین فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔

اس واقعے کے بعد سے کشمیر میں کرفیو نافذ ہے تاہم چند روز قبل انتظامیہ نے کرفیو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن حالات خراب ہونے پر دوبارہ کرفیو نافذ کردیا گیا تھا۔

اس دوران انڈین فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے کشمیریوں کی تعداد 80 کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔