بشیگرام جھیل: سوات کا حقیقی پرستان
بچپن میں دیگر بچوں کی طرح ہم بھی دادی اماں کی کہانیاں سنتے سنتے میٹھی نیند کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔ دادی اماں کی سنائی گئی ایک آدھ کہانی تو آج بھی یادداشت کے صفحات پر ماضی کی طرح نقش ہے۔
ایسی ہی ایک کہانی شہزادہ بہرام اور شہزادی گل اندام کے متعلق تھی جسے دادی اماں ہمیں ہفتے میں کسی ایک رات ضرور سنایا کرتی تھیں۔
ہر بار اس کہانی سے ہم ایسے محظوظ ہوتے جیسے اس کہانی کو پہلی بار سن رہے ہوں۔ مذکورہ کہانی میں تورابان دیو کا کردار منفی ہوتا ہے جو شہزادی گل اندام کو اٹھا کر لے جاتا ہے۔ جس کے بعد شہزادہ بہرام جان پر کھیل کر شہزادی کو واپس لے آتا ہے۔
اپنی کہانیوں میں دادی اماں پرستان نامی جس فرضی علاقے کی منظر کشی کرتی تھیں، آج ٹھیک اُنتیس تیس سال بعد جیسے ہی کہر کی چادر میں لپٹی بشیگرام جھیل پر پہلی نظر پڑی، تو نہ جانے کیوں اس پر پرستان کا گمان ہونے لگا۔
آج اگر دادی اماں زندہ ہوتیں اور بشیگرام جھیل کی تصاویر دیکھتیں، تو وہ بھی میرے اس دعوے کی تصدیق کرتیں۔
بشیگرام جھیل وادیء بشیگرام (مدین) کے مشرق میں واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی گیارہ ہزار پانچ سو فٹ ہے۔ اس کا شمار نہ صرف سوات بلکہ پورے پاکستان کی خوبصورت ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے باغ ڈھیرئی کے راستے 51 کلومیٹرز کا فاصلہ طے کرنے کے بعد مدین کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ مدین تک سڑک کی صورتحال خاصی بہتر ہے۔
یہ فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں با آسانی طے ہوجاتا ہے۔ مدین سے آگے فور بائی فور جیپ درکار ہوتی ہے۔ کیوںکہ مذکورہ روڈ خستہ حالی کا شکار ہے۔