پاکستان

پاناما لیکس : حکومت اور اپوزیشن قانونی جنگ کیلئے تیار

اپوزیشن کی جانب سے سینیٹ میں انکوائری کمیشن کے قیام کے حوالے سے بل جمع کرائے جانے کے بعد حکومت بھی اپنا بل لے آئی۔

اسلام آباد: حکومت اور اپوزیشن پاناما لیکس میں سامنے آنے والے انکشافات اور کرپشن کے دیگر الزامات کی تحقیقات کے حوالے قانونی جنگ کیلئے تیار ہیں۔

پاناما پیپرز میں کیے جانے والے انکشافات کے بعد حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ہی اس بات کا عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ اس حوالے سے انکوائری کمیشن قائم کریں گے تاہم اختلاف رائے کی وجہ سے کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) طے کرنے کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات اب تک بے سود رہے ہیں۔

سینیٹ سیکریٹریٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت یافتہ بل جمع کرائے جانے کے دو روز بعد حکومت نے بھی قومی اسمبلی میں پاکستان انکوائری بل 2016 متعارف کرادیا جو 1956 کے ایکٹ کی جگہ لے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس تحقیقات، اپوزیشن نے سینیٹ میں بل جمع کرادیا

پیپلز پارٹی کی جانب سے جمع کرائے جانے والے بل میں آف شور کمپنی رکھنے والوں کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا پریس بریفنگ کے دوران کہنا تھا کہ حکومت قانون میں اصلاحات کیلئے تیار تھی لیکن اپوزیشن نے تمام دروازے بند کردیے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کیے جانے والے بل میں پاناما گیٹ انکوائری کا دائرہ محدود کرنے کا مطالبہ کرنے کے بعد حکومت کے پاس اس معاملے کی تحقیقات کے حوالے سے اپنا قانونی مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ سینیٹ میں اپوزیشن کو اکثریت حاصل ہے اور قومی اسمبلی میں حکمراں جماعت کو لہٰذا اسحاق ڈار نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ معاملہ بالآخر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں طے پاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے مجوزہ بل میں انکوائری کمیشن کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیے ہیں اور ضروت پڑنے پر اس میں مزید اصلاحات بھی کی جاسکتی ہیں۔

مزید پڑھیں:پاناما پیپرز: پاکستانیوں کے متعلق انکشافات

پریس کانفرنس کے دوران وزیر قانون زاہد حامد، وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ میر حاصل خان بزنجو، وزیر اعظم کے معاون خصوصی ظفراللہ خان اور وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمٰن بھی موجود تھیں۔

اسحاق ڈار نے اپوزیشن پر الزام لگایا کہ وہ اپنے مجوزہ بل کے ذریعے اپنے رہنماؤں کو بچانے کی کوشش کررہی ہے اور وہ سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرکے قرض معاف کرانے اور غیر قانونی طریقے سے رقوم کی بیرون ملک منتقلی کی تحقیقات کے بھی خلاف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جے بل میں صرف وزیر اعظم نواز شریف کو نشانہ بنایا گیا بہرحال بل میں براہ راست ان کا نام شامل نہیں۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ وزیر اعظم پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اور ان کے اہل خانہ انکوائری کمشین کے سامنے پیش ہونے کیلئے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ پارلیمانی رویے کا مظاہرہ کیا ہے، قومی اسمبلی سے حکومت کے کئی بل پاس ہونے کے بعد جب سینیٹ گئے تو وہاں ان میں ترامیم کی گئیں اور حکومت ان ترامیم شدہ بلوں کو تسلیم کرتی رہی ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومتی بلوں میں ترمیم کرتے وقت اپوزیشن کہتی تھی کہ یہ ان کا استحقاق ہے ، اب ہم بھی اپنا استحقاق استعمال کریں گے۔

اسحاق ڈار کا یہ بیان اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اپوزیشن کا بل اگر سینیٹ میں منظور ہو بھی جائے تو قومی اسمبلی میں اسے منظوری نہیں ہونے دیا جائےگا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما پیپرز کی دوسری قسط: 259 پاکستانیوں کے نام شامل

وزیر قانون نے کہا کہ مجوزہ بل میں انکوائری کمیشن کو زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں اور یہ مسودہ قانون سپریم کورٹ کی ہدایات کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا تھا کہ اگر 1956 ایکٹ کے تحت کوئی بھی کمیشن قائم کیا گیا تو وہ غیر موثر ہوگا۔

حاصل بزنجو نے کہا کہ حکومت نے منی لانڈرنگ اور کرپشن کے مقدمات کے حوالے سے اپوزیشن کے ساتھ مل کر قانون بنانے کی کوشش کی لیکن اپوزیشن پاناما پیپرز سے آگے نہیں بڑھنا چاہتی۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے از خود ہی وزیراعظم کو مجرم قرار دے دیا ہے اور ان کیلئے سزا بھی تجوزیر کردی ہے۔

انوشہ رحمٰن نے کہا کہ اپوزیشن کے مجوزہ بل کا مقصد اس شخص کو پکڑنا ہے جس کا نام پاناما پیپرز میں شامل نہیں تھا اور یہ کوشش بلاواسطہ طور پر وزیر اعظم کو نشانہ بنانے کیلئے کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے بل میں وہ لفظ ’کھلے عام‘ کا استعمال دیکھ کر حیران رہ گئیں جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ تحقیقات کا آغاز اس شخص سے ہونا چاہیے جس نے ’کھلے عام‘ پیشکش کی ہے کہ احتساب اس سے شروع کیا جائے۔

اپوزیشن کے بل میں تمام مطالبات شامل ہیں جو ان کے تیار کردہ ٹی او آرز میں تھے اور جنہیں پہلے ہی حکومت مسترد کرچکی ہے۔

بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کمیشن سب سے پہلے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کی تحقیقات کرے اور اس کے بعد پاناما پیپرز میں شامل دیگر لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما لیکس: متحدہ اپوزیشن کا ٹی او آر پر مزید بات کرنے سے انکار

تاہم مجوزہ بل میں وزیر اعظم کے عہدے یا ان کے نام کا استعمال نہیں کیا گیا اور محض یہ لکھا گیا ہے کہ ’وہ فریقین اور ان کے اہل خانہ جنہوں نے کھلے عام رضاکارانہ طور پر خود کو احتساب کیلئے پیش کیا یا جنہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ آفشور کمپنی، اثاثے اور جائیداد رکھتے ہیں‘۔

بل کے مطابق کمیشن وزیر اعظم کے خلاف اپنی تحقیقات 3 ماہ میں مکمل کرنے کا پابند ہوگا جبکہ اسے ایک ماہ کا اضافہ وقت دیا جاسکتا ہے۔

کمشین کے پاس ان دیگر لوگوں کے خلاف کارروائی کیلئے 12 ماہ کا وقت ہوگا جن کے نام پاناما پیپرز میں سامنے آئے ہیں۔

حکومتی بل کے اہم نکات

حکومتی بل کے تحت وفاقی حکومت اس بات کا تعین کرے گی کہ تحقیقات کتنے عرصے میں مکمل ہونی چاہئیں تاہم کمیشن کی درخواست پر مدت میں توسیع کی جاسکتی ہے۔

کمیشن کو مجموعہ ضابطہ دیوانی 1908 کے تحت سول کورٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے۔

کمیشن کا چیئرمین یا کوئی افسر جو 17 گریڈ سے کم نہ ہو اور چیئرمین نے اسے اختیار دیا ہو، ہر اس عمارت اور مقام میں داخل ہوسکتے ہیں جہاں انہیں لگتا ہو کہ متعلقہ تحقیقات کے حوالے سے دستاویزی شواہد مل سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ان دستاویز کو ضبط بھی کرسکتے ہیں۔

کمیشن کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ کسی بھی شخص کو طلب کرسکے اور اس سے تحقیقات کرسکے، ساتھ ہی وہ کسی بھی طرح کے دستاویز اور سرکاری ریکارڈز بھی طلب کرسکتا ہے۔

کمشین کی کارروائی میں دخل اندازی، رکاوٹ ڈالنے والے، حکم عدولی اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے کمیشن کے پاس ہائی کورٹ کے اختیارات ہوں گے۔

مقننہ کے حکام کمیشن کی معاونت کریں گے اور کمیشن کی عبوری اور حتمی رپورٹس کو عوام کے سامنے لایا جائے گا۔

قبل ازیں قومی اسمبلی میں حکومتی بل وزیر قانون زاہد حامد نے پیش کیا اور اپنے خطاب میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے موجودہ صورتحال میں جتنا ممکن ہوسکتا تھا جامع بل ترتیب دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بل میں ان تمام پہلوؤں کو شامل رکھا گیا ہے جن کا تذکرہ سپریم کورٹ اپنے ریمارکس میں کرتی رہی ہے۔

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی رہنما کے سید نوید قمر نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ بل پیش کرتے ہوئے اس کا دفاع کرنا پارلیمانی اصولوں کے خلاف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی بل کا مقصد وزیر اعظم کو تحفظ فراہم کرنا ہے کیوں کہ ان کے بچوں کے نام پاناما پیپرز میں آچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاناما لیکس کے بعد وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے مالی معاملات کے حوالے سے لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے اور وہ سچ جاننا چاہتے ہیں لیکن حکومتی بل انہیں سوال پوچھنے کے حق سے محروم کرتا ہے۔

مزید پڑھیں:پاناما لیکس تحقیقات: 'اپوزیشن کے ٹی او آرز مسترد'

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا حصہ ہونے کی حیثیت سے میں ابھی اس بل کو مسترد کرتا ہوں اور اس وقت بھی مسترد کروں گا جب یہ حتمی منظوری کیلئے ہمارے پاس آئے گا۔

پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے بھی نوید قمر کی توثیق کی اور کہا کہ ٹی او آر کمیٹی کے 8 اجلاسوں میں اپوزیشن جماعتوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی سمجھوتے پر پہنچ جایا جائے لیکن حکومت وزیر اعظم کے خلاف کچھ بھی سننے کو تیار نہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومتی بل پاناما پیپرز کے معاملے کو مزید خراب کردے گا اور اپوزیشن اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے پر عزم ہے۔

یہ خبر 3 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی