لائف اسٹائل

'میں وکٹم نہیں، سروائیور ہوں'

ڈرامے کا متاثر کن سیکونس حقیقی متاثرین کے اندر اپنے مجرموں کا سامنا کرنے کی ہمت پیدا کرتا ہے۔

ہم ٹی وی پر چلنے والا ڈرامہ اڈاری اس وقت مقبول ترین سیریل ہے، جس میں انتہائی حساس موضوع کو خوبصورتی سے پیش کرکے ریپ اور بچوں کے استحصال سے متعلق شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سنگت، چپر رہو اور گل رعنا جیسے ڈراموں میں غلطیوں سے بھرپور اور رجعت پسندانہ کہانیوں کے بعد اڈاری میں اچھی تحقیق، مستند اور سب سے اہم متاثرین کو چیمپئنز کے انداز سے پیش کیا گیا ہے، دیگر ڈراموں کے برعکس اس میں مضحکہ خیز موڑ یا عوامی توجہ کے لیے غیر فطری تفصیلات پر انحصار نہیں کیا گیا، اس میں ملزم متاثرہ فریق سے محبت نہیں کرتا اور متاثرہ فریق ملزم کو معاف کرنے پر غور نہیں کرتا۔

ڈرامے کی مختصر کہانی

اس ڈرامے کو دیکھنے والے واقف ہیں کہ اڈاری سجو (سمعیہ ممتاز) اور اس کی بیٹی زیبو (حنا الطاف خان) کے گرد گھومتا ہے جو سوتیلے والد امتیاز (احسن خان) کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہوتی ہے۔ غصے کی شکار امتیاز پر حملہ کرکے اسے مردہ سمجھ کر گاﺅں چھوڑ دیتی ہے اور لاہور میں ایک این جی او (کشف فاﺅنڈیشن) کی مدد سے نئی زندگی شروع کرتی ہے جہاں اس کی پرانی سہیلی شیداں (بشریٰ انصاری) اور اس کی بیٹی میرا (عروہ حسین) بھی ہوتے ہیں۔

سات سال بعد امتیاز انہیں ڈھونڈ لیتا ہے اور سجو سے اپنا انتقام لینے کے لیے اسے اقدام قتل کے مقدمے میں عدالت لے جاتا ہے، وہ جانتا ہے کہ متاثرین اس کے بارے میں بولنے کی ہمت نہیں کریں گے۔ میرا کا پرانا دوست اور وکیل عرش (فرحان سعید) کو سجو کے دفاع کی ذمہ داری دی جاتی ہے مگر اس کی موکل کی خاموشی مقدمے میں کامیابی کو لگ بھگ ناممکن بنادیتی ہے۔

اڈاری کا اہم پیغام

28 اگست کی تاریخ کو اڈاری میں اب تک کا سب سے اہم ترین پیغام دیا گیا، 21 ویں قسط میں متاثرین کو کہا جاتا ہے کہ وہ ماضی کے خوف سے باہر نکلیں۔ ڈاکٹر کے پاس جانے اور رپورٹ کی تیاری کی اہمیت کے ساتھ ساتھ عدالت کی کارروائی کو عام انداز سے پیش کیا گیا ہے تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ ایک سماعت کے دوران کیا ہوتا ہے۔

سب سے اہم امر یہ تھا کہ زیبو کو درست چیز پر لیکچر دینے کی بجائے عرش ایک اصل ہیرو کی طرح زیبو کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اسے اپنی زندگی پر کنٹرول کا راستہ دکھاتا ہے۔

عرش وضاحت کرتا ہے کہ شرم یا پچھتاوا جیسے بوجھ کو زیبو کو نہیں اٹھانا چاہئے، یہ سب حملہ آور کی ذمہ داری ہے، متاثرہ فریق کی نہیں۔

ایک بہترین سیکونس میں زیبو بار بار اس چیز کا اعادہ کرتی ہے جو عرش نے اسے سیکھائی ہوتی ہے " میں وکٹم نہیں، میں سروائیور ہوں، میں بیچاری نہیں بنوں گی، میں اپنے مجرم کو سزا دلواﺅں گی، شرم مجھے نہیں اسے کرنی چاہئے'۔

یہ سادہ مگر انتہائی موثر ڈائیلاگ فرحت اشتیاق نے لکھا جو دل میں اترنے والا ہے جس کے اثر اور توانائی میں فرحان سعید اور حنا الطاف خان نے بہترین کردار نگاری سے اضافہ کیا۔

ڈائریکٹر احتشام الدین نے سیریل کی ہدایات کو اچھی طرح نبھایا ہے اور دیکھنے والوں کو اس سے جوڑے رکھا جبکہ ہر قسط کے ساتھ اس گرفت کو مضبوط کیا۔ اڈاری کے پیچھے تو یہی خیال تھا کہ جنستی استحصال اور ریپ کے حوالے سے شعور اجاگر کیا، مگر ٹیم نے کسی بھی ڈرامے کی پہلی چیز کو فراموش نہیں کیا یعنی دیکھنے والوں کو تفریح اور اپنے ساتھ جوڑے رکھنا، یہی وجہ ہے کہ میوزک، رومانس اور مزاح بھی اس کا حصہ ہیں۔

اب جب ڈرامہ اپنے عروج پر ہے، ہم یہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا زیبو اور سجو اپنے ماضی سے باہر نکل سکیں گی یا شیطان امتیاز کا سایہ انہیں ہمیشہ ستاتا رہے گا؟