نقطہ نظر

ایم کیو ایم دفاتر کی 'ون وِنڈو سروس'

آفس کے سب ساتھی ان دفاتر کی افادیت بیان کرنے لگے۔ ان کے مطابق کوئی بھی کام پھنس جائے تو یونٹ دفتر جانے پر بن جاتا تھا۔

کال تو الطاف حسین نے لندن سے کی تھی اور گالی پاکستان کو دی، مگر یہ کیا کہ حکومت نے کراچی میں ایم کیو ایم کے دفاتر کو ہدف بنا لیا ہے۔

الطاف حسین کی رہائش اور مرکز نائن زیرو، ایم پی اے ہاسٹل، نشر و اشاعت مرکز، خورشید بیگم میموریل ہال اور دیگر دفاتر کو پہلے ہی روز سیل کر دیا گیا، مگر اب ریاست نے شہر بھر میں قائم ایم کیو ایم کے سیکٹر، یونٹ، ایم این اے، ایم پی اے اور لیبر ڈویژن کے دفاتر کو بھی گرانا شروع کر دیا ہے اور جو فوری طور پر منہدم نہ ہوسکے انہیں سیل کر دیا گیا ہے۔

اس اقدام کا مقصد شہر پر ریاست کی گرفت کو مضبوط کرنا نظر آتا ہے مگر چند لوگوں کے مطابق ایم کیو ایم کے دفاتر محض کسی سیاسی جماعت کے دفاتر نہیں تھے، بلکہ ریاست اور حکومت کی فراہم کی جانے والی تمام سہولتوں کے علاوہ کاروباری اور نجی معاملات اور مسائل حل کروانے کا مرکز بھی تھے۔

یقین نہیں آتا؟ مجھے بھی نہیں آتا تھا مگر جب دفاتر کے انہدام کا سلسلہ شروع ہوا تو دفتر میں بحث چل نکلی کہ ان دفاتر کے گرانے کا فائدہ یا نقصان کیا ہوگا۔

میرے ایک دوست اور کیمرا مین جو کہ گلشن اقبال کے علاقے میں رہائش پذیر ہیں، اس عمل سے بہت پریشان اور مضطرب نظر آئے۔

پڑھیں: متحدہ دفاتر مسمار:'کیا دیواروں نے 'مردہ باد' کا نعرہ لگایا تھا؟

ان سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو سب سے پہلے انہوں نے پاکستان کے ساتھ اپنی محبت کا یقین دلانے کی بھر پور کوشش کی۔ ان کے اس عمل میں دفتر کے دیگر ساتھی بھی شامل ہوگئے اور پھر آہستہ آہستہ ان دفاتر کی افادیت بیان کرنے لگے۔ ان کے مطابق کوئی بھی کام پھنس جائے، بس ایم کیو ایم کے سیکٹر یا یونٹ دفتر جاؤ، کام بن جاتا تھا۔

"اچھا؟ تو بھائی کیا کیا کام ہوجاتے تھے ان دفاتر میں؟" میں نے تجسس بھرے لہجے میں سوال کیا تو ان صاحب کی ہمت بڑھ گئی۔ مگر مکمل جواب دینے سے پہلے انہوں نے مجھ پر سوال داغنا ضروری سمجھا۔

"بھائی آپ تو ایسے پوچھ رہے ہیں جیسے کراچی میں رہتے ہی نہیں۔"

میں نے کہا کہ یار میں جس علاقے میں رہتا ہوں وہ ایسا خوش قسمت نہیں کہ ایم کیو ایم دفتر قائم کرتی۔

اب جو انہوں نے ایم کیو ایم کے دفاتر سے فراہم ہونے والی سہولیات کی فہرست گنوانی شروع کی تو میں گنتی بھولنے کو تھا۔

بولے، "ارے یار پارٹی آفس میں تو ہر طرح کا کام ہو جاتا ہے۔ شناختی کارڈ بنوانا ہو، ڈیتھ سرٹیفکیٹ ہو، اسکول کالج میں داخلہ، کچرا اٹھانا، پانی کی فراہمی و نکاسی، پولیس کا معاملہ، یہاں تک کہ شادی طلاق یا پھر لین دین کے معاملات سب اسی دفتر میں طے پاتے تھے۔"

"اچھا شادی اور طلاق کے معاملات بھی حل ہوجاتے تھے؟" میں نے مزید تجسس کا اظہار کیا، "کیا لوگ یونٹ اور سیکٹر کے فیصلوں پر طلاق دیتے تھے؟"

وہ صاحب بولے، "نہ صرف شادی اور طلاق کے معاملات طے ہوتے تھے، بلکہ اگر بچوں کے نان نفقے کا مسئلہ بھی ہو تو پارٹی آفس میں بیٹھ کر طے کیا جاتا تھا اور کوئی چوں بھی نہیں کرسکتا تھا۔

"ہمارے پڑوس میں زاہد صاحب رہتے تھے، انہوں نے تین بچوں کی پیدائش کے بعد بیوی کو طلاق دے دی۔ معاملہ یونٹ آفس میں آیا، کمیٹی بنی اور فیصلہ ہوا کہ زاہد صاحب بچوں کا نان نفقہ ادا کریں گے۔ چار سال ہو گئے زاہد صاحب باقاعدگی سے ادائیگی کر رہے ہیں۔ ایک مرتبہ کچھ دن پیسے تاخیر سے پہنچے تو زاہد بھائی کو چند دن اسپتال میں گزارنا پڑ گئے۔"

میں ابھی اس 'ون-وِنڈو سروس' کی تفصیلات کی حیرانی سے نکلا نہیں تھا کہ ہمارے ڈرائیور صاحب بھی کود پڑے۔ انہوں نے تو دودھ کے مسائل بھی پارٹی آفس سے حل کروائے تھے۔

پڑھیں: متحدہ قومی موومنٹ ایک ناکارہ مشین؟

بتانے لگے کہ "ہمارا دودھ والا ملاوٹ بہت زیادہ کرنے لگا تھا۔ کئی مرتبہ کہا مگر وہ نہ مانا تو پھر یونٹ آفس میں درخواست دی۔ پھر کیا تھا۔ اس دودھ والے کو دفتر میں بلا کر مرغا بنا دیا گیا۔ بے چارہ موٹا تھا، چند منٹ بعد ہی حالت خراب ہوگئی۔ اس کے بعد دودھ میں کبھی ملاوٹ کی شکایت نہ ہوئی۔

"بھائی جان یونٹ والے ملاوٹ کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ روزانہ کوالٹی چیک کرنے کے لیے دودھ کی مناسب کھیپ یونٹ کے دفتر پہنچائی جاتی تھی۔ اسی طرح یونٹ میں علاقے کے کھانے پینے کی اشیاء پر گہری نظر رکھی ہوئی تھی۔ روزانہ دس پندرہ لڑکوں کا کھانا ہوٹلوں سے آتا تھا۔ جس کا معیار اچھا نہ ہوتا، اس سے وہی سلوک ہوتا جو دودھ والے کے ساتھ ہوا۔ حکومت کو ٹیکس ملے یا نہ ملے، روزانہ پارٹی کا چندہ ضرور دفتر پہنچ جاتا تھا۔

بالآخر میں نے پوچھا کہ بھائی سنا ہے وہاں لوگوں کو مارا پیٹا جاتا تھا؟

"وہ صاحب ہنس کر بولے بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی بات نہ مان رہا ہو تو ایک آدھا ہاتھ مار دیا جاتا تھا اور بس بات بن جاتی تھی۔

"ویسے دفتر بہت صاف ستھرے ہوتے تھے۔ بیٹھنے کی مناسب جگہ ہوتی تھی۔ مین پوری بھی کوئی نہیں تھوک سکتا تھا۔ باقی مار پیٹ کا کام تو کسی بھی سنسان جگہ ہوتا تھا۔ اس کے لیے دفتر کو کیوں خراب کریں۔ سرکاری دفتروں کے چکر کاٹنے کے بجائے ایک ہی دفتر جاتے تھے، سب کام ہوجاتے تھے چاہے وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری۔"

"تو بھائی دفتروں میں کون لوگ بیٹھتے تھے، ان کے کھانے کمانے کا کیا ذریعہ تھا؟"

میرے اس سوال پر ایک اور ساتھی کیوں پیچھے رہتے، اس کا جواب ان کے پاس تھا۔

وہ صاحب تھوڑا رازدارانہ انداز میں بولے: "بھائی ماہانہ چندا تو جاتا تھا پارٹی کو، اس کے علاوہ گلی کے آوارہ گھومنے والے لڑکوں کو بلدیہ، واٹر بورڈ اور نہ جانے کس کس سرکاری دفتر میں بھرتی کروا دیا تھا، مگر وہ ڈیوٹی تو یونٹ آفس میں دیا کرتے تھے۔ یہیں سے ان کی حاضری جاتی، تو تنخواہ مل جاتی تھی۔ ویسے بھی مارکیٹ ایسوسی ایشن کی طرح پارٹی کے نمائندے ماہانہ بنیاد پر چندہ جمع کرتے تھے۔ پتھارے والے یا ٹھیلے والے روزانہ چندہ دیا کرتے تھے۔"

اسی گفتگو کے دوران ایم کیو ایم کا سوشل میڈیا پر بنایا گیا وہ اشتہار یاد آگیا جس میں ایک شخص اپنی ماں کو کہتا ہے کہ ووٹ بلے کو دینا تو ماں اس کو متعدد کام گنوا دیتی ہے اور ہر کام ایم کیو ایم کے دفتر سے حل ہوتا ہے۔ تو آخر میں ماں کہتی ہے کہ جب سب کام ایم کیو ایم کے دفتر سے ہی حل ہونا ہیں تو پھر ووٹ بلے کو کیوں دوں؟

"ویسے ایک بات ہے راجہ بھائی۔۔۔" ان صاحب نے اپنا رازدارانہ انداز جاری رکھتے ہوئے کہا، "اس دفتر میں کبھی کبھی مشکوک لوگ آیا جایا کرتے تھے، وہ بھی تب جب شہر کے حالات خراب ہوتے تھے۔ چند کمرے تو ایسے تھے کہ وہاں علاقے کا کوئی بھی فرد نہیں جاسکتا تھا۔"

پڑھیں: رینجرز کارروائیاں ایم کیو ایم کیلئے فائدہ مند ہیں:اعتزاز احسن

ڈرائیور صاحب نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے جاننے والے کی دکان تھی، باقاعدگی سے چندہ بھی دیتا تھا، مگر کچھ لڑکوں سے کھٹ پٹ ہوگئی۔ پارٹی کے لڑکے آئے اور بھرے بازار میں مار مار کر لہو لہان کر دیا۔ پارٹی نے پنچائیت بھی بلائی، مگر فیصلہ یہی ہوا کہ پارٹی کے لڑکوں سے الجھنے کا تو انجام تو بھگتنا ہی پڑے گا، مگر زخمی لڑکے کا بہترین علاج عباسی شہید اسپتال میں کروا دیا تھا۔"

پھر چند قصے ایسے بھی سنائے جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوگئے مگر وہ ضبطِ تحریر لانے مشکل ہیں۔

ایک صاحب تنک کر بولے، "یار ان دفتروں سے بڑی جان جوکھم میں تھی۔ رشتہ داروں کے گھر جاؤ یا نہ جاؤ، بھائی کی تقریر سننے کے لیے پوری فیملی کو جانا پڑتا تھا۔ پہلے پارٹی کے دفتر میں حاضری، پھر جلسے میں حاضری۔"

کیمرا مین بھائی کو یہ بات اچھی نہ لگی، مگر وہ صرف یہی بول پائے کہ بھائی دودھ دینے والی گائے کی لات بھی کھانی پڑتی ہے۔

اصل بات تو چائے دینے والے دوست نے کر دی۔ "بھائی دفتر گرائیں یا نہ گرائیں، انہیں چلاتے تو پارٹی کے لڑکے ہی تھے، وہ لڑکے تو ابھی بھی علاقے میں موجود ہیں اور ان کا ڈر پہلے سے زیادہ ہوگیا ہے۔

"پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ یونٹ نے بات نہ سنی تو علاقے کے ایم این اے ایم پی اے کے پاس یا پھر براہ راست مرکز کا رخ کر لیا، مگر اب پتہ نہیں وہ پارٹی کے لڑکے الطاف حسین کی بات مانیں گے یا فاروق ستار کی۔ یا وہ اب کچھ بھی کرنے میں آزاد ہیں۔ ان کے خلاف پولیس اور رینجرز میں جانے کی ہمت لوگوں میں کم ہی ہے۔ اللہ جانے اب ہوگا کیا۔"

اس بات پر سب خاموش ہوگئے اور میں دوبارہ خبر بنانے پر متوجہ ہوگیا مگر بار بار اس کی بات دماغ میں گونجتی رہی۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔